مہاراشٹر:شدت پسند ہجوم کا مسلم نوجوان پر حملہ،گالی گلوج اور نازیبا تبصرے

ہجو م نے جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے کیا حملہ،پولیس نے ممکنہ فسادات کے خدشات کے سبب ایف آئی آر درج کرنے سے کیا انکار

ممبئی ،24 اکتوبر :۔

مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کو شدت پسند ہجوم کے ذریعہ نشانہ بنانے کے واقعات سلسلہ کم نہیں ہو رہا ہے ۔آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں جس میں مسلمانوں کو مذہبی شناخت کی وجہ سے یا ان کا نام پوچھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔گزشتہ دنوں 22 اکتوبر کی رات ممبئی کے پیلی پاڈا علاقے میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جہاں دارالعلوم فیضان رضا کے صدر شرافت خان کو مبینہ طور پر اویناش گھرت، لکشمی گھرت، سائی گھرت، بابو گھرت، ریکھا گھرت، بھاونا، اور نتن مہترے  اور دیگر  لوگوں پر مشتمل تقریباً20 افراد کے ایک گروپ نے نشانہ بنایا۔ اس ہجوم نے  شرافت خان پر حملہ کرنے کی کوشش کی،اس دوران  "جے شری رام” کے نعرے لگائے اور  شرافت خان کو مذہبی منافرت پر مبنی توہین آمیز تبصرے کئے ،گالی گلوج کی۔

دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق شرافت خان نے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو اس کی طبی تشخیص کے لیے لینے کے لیے اپنے گھر واپس جا رہا تھا  اس دوران مجھے شدت پسند ہجوم نے روکا۔ انہوں نے میرا راستہ روکا اور مجھ سے جھگڑا کیا۔ اپنی حفاظت کے خوف سے، میں نے فوری طور پر مقامی پولیس اسٹیشن کو مدد کے لیے فون کیا۔

 

انہوں نے بتایا کہ دو پولیس کانسٹیبل آئے بھی مگر ہجوم نے مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے افسران کی موجودگی میں بھی ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی،   نعرے  بازی کی اور تضحیک آمیز تبصرے کئے ۔ خان نے بتایا کہ جب میں نے دیکھا کہ پولیس کی موجودگی میں بھی ہجوم کا حملہ جاری ہے اور وہ ہجوم کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں تو میں جان بچا کر بھاگا۔

انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد، وہ اور ان کے خاندان کے افراد ایف آئی آر  درج کرانے کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچے۔ تاہم، اس دن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حکام نے مقدمہ درج ہونے کی صورت میں ممکنہ فسادات کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی آر درج نہیں کی۔

پولیس اسٹیشن میں موجود مقامی سیاست دانوں نے مبینہ طور پرشرافت خان کو مشورہ دیا کہ وہ ملزمین کے ساتھ معاملہ طے کر لیں یعنی صلح کر لیں۔اس دوران ملزمین کی طرف سے انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔

شرافت خان نے کہا کہ”یہ لوگ مجھے مسلسل ہراساں کرتے رہے ہیں، اور انہوں نے ہماری مسجد اور مدرسہ کو نشانہ بنایا ہے، جسے ہم 14 سال سے چلا رہے ہیں۔ وہ معاشرے میں جان بوجھ کر دو مذاہب کے درمیان تفرقہ ڈال رہے ہیں اور ممبئی میں فساد جیسی صورتحال کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔