موہن بھاگوت:بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے

انتخابی تشہیر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات پر جب دنیا بول رہی تھی تو آر ایس ایس دانستہ طور پر یا انجانے میں خاموش تھااور جب الیکشن ختم ہو گیا تو نصیحت سوجھ رہی ہے

  سید خلیق احمد

نئی دہلی،12جون :۔

حال ہی میں ختم ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران سیاست دانوں کی طرف سے استعمال کی گئی زبان پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا ردعمل بہت حوصلہ افزا ہے، لیکن یہ بہت دیر سے آیا، جس سے اس کی مطابقت ختم ہو گئی۔ اس کا دیر سے جواب دینا  جواب نہ دینے سے بہتر تھا۔

انہوں نے یہ تبصرہ گزشتہ روز پیر کو ناگپور میں آر ایس ایس کارکنوں کے لیے منعقدہ ایک تربیتی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ایک اہم تبصرے میں انہوں نے کہا کہ ایک سچا "سیوک” کبھی مغرور نہیں ہوتا اور انتخابات میں اس وقار کا خیال نہیں رکھا گیا۔

تاہم، ہندی زبان میں ان کی تقریر سے یہ واضح نہیں ہوا کہ انہوں نے کسے مغرور کہا اور کس نے انتخابات کے دوران اخلاقیات کی پیروی نہیں کی۔ اگر انہوں نے انتخابی مہم کے دوران تکبر کا مظاہرہ کرنے والے شخص کی شناخت کیے بغیر یہی بات کہی ہوتی، تو اس سے بی جے پی کے اسٹار پرچارکوں کو ووٹروں کو پولرائز کرنے اور سیاسی فائدے کی نیت سے غلط زبان استعمال کرنے سے باز رکھنے میں مدد ملتی۔

انتخابات کے دوران مسلمانوں کے بارے میں مسلسل تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے مودی کے  نا مناسب تبصروں کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے بڑے پیمانے پر کور کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو "درانداز” کہا اور ان کی شناخت "بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والوں ” کے طور پر کی، جو زبان مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے عام طور پر دائیں بازو کے شدت پسند افراد استعمال کرتے  ہیں ۔ایک آئینی اور با وقار عہد ے پر رہتے ہوئے وزیر اعظم نے سطحی زبان کا استعمال کیا۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ کانگریس پارٹی انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے کی صورت میں ہندوؤں کی جائیداد کو  مسلمانوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، حالانکہ پی ایم مودی کے پاس ان الزامات   کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔محض انہوں نے ہندو اکثریت کو پولرائز کرنے کے لئے کانگریس کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے یہاں تک کہا کہ کانگریس پارٹی ہندو خواتین کے سونے کا "منگل سوتر” اور لوگوں کے نجی مکانات چھین لے گی۔ یہ بیان بہت اشتعال انگیز تھا کیونکہ منگل سوتر، جسے شوہر اپنی بیوی کے گلے میں باندھتا ہے، بہت مبارک سمجھا جاتا ہے۔ وزیر اعظم مودی  کا یہ بیان یقینی طور پر اشتعال انگیز اور تشدد بھڑکانے والا تھا۔

مودی نے اپنی سیاسی ریلیوں کے دوران یہ تبصرہ بھی کیا کہ اگر 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد کانگریس اور سماج وادی پارٹی اقتدار میں آتی ہیں تو رام مندر کو منہدم کردیا جائے گا۔ یہ تمام بیانات تشدد کو بھڑکانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ تو الیکشن کمیشن آف انڈیا، جو منصفانہ انتخابات کا ذمہ دار ہے، اور نہ ہی موہن بھاگوت کی زیر قیادت سنگھ پریوار، جسے اپنے ’’سیوکوں‘‘ اور آر ایس ایس کے ارکان کے ضمیر کا محافظ سمجھا جاتا ہے، نے اس کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی  سوال پوچھا۔ اگر اس دوران آر ایس ایس سر براہ کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے آتا تو ہو سکتا تھا کہ بی جے پی کے اشتعال انگیز بیانات پر لگام لگ سکتی تھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ایم مودی نے اس طرح کے بیانات کو اپنی پارٹی کے حق میں ہندوؤں کو پولرائز کرنے اور اپنے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو مزید بڑھانے کی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔

چونکہ بی جے پی کو سنگھ کا سیاسی ونگ سمجھا جاتا ہے اور تقریباً تمام بی جے پی ممبران پارلیمنٹ بشمول پی ایم مودی آر ایس ایس کے رکن ہیں، اس لیے موہن بھاگوت کی جانب سے مودی کو سیاسی فائدے کے لیےنچلی سطح پر نہیں جانے   کے لیے کہا جانا یقیناً مودی  کو آئندہ ایسی تقریریں کرنے سے باز رکھے گا۔

آر ایس ایس اور بھاگوت جو کہ بی جے پی کے سرپرست بھی مانے جاتے ہیں، نے مودی اور دیگر بی جے پی لیڈروں کی طرف سے استعمال کی گئی نفرت انگیز زبان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا، اس سے لوگ کیا نتیجہ نکالیں؟ کیا موہن بھاگوت کی خاموشی، خاص طور پر جب انہیں بولنا تھا، یہ بتاتا ہے کہ آر ایس ایس میکیا ویلین اصول پر یقین رکھتا ہےاور اور ہدف کے حصول کو جائز ٹھہراتا ہے،  اس بات سےقطع نظر کہ ہدف کے حصول کے لئے استعمال کئے گئے ذرائع اچھے ہوں یا برے؟

اگر آر ایس ایس سپریمو نے انتخابات کے دوران بی جے پی لیڈروں کی نفرت انگیز مہم کے خلاف بات کی ہوتی تو اس سے ان کی حیثیت میں اضافہ ہوتا اور تمام مذہبی گروہوں کی طرف سے ان کی تعریف کی جاتی۔ لیکن نقصان ہو جانے کے بعد لمبے لمبے خطبے دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

کیا اب لوگ ان کے ردعمل کو آر ایس ایس کے لیے چہرہ بچانے کی حکمت عملی سمجھیں گے کیونکہ کم سے کم آر ایس ایس کا حصہ ہونے پر فخر محسوس کرنے والے بی جے پی لیڈروں کے لئے یہ ایک محافظ کے طور پر اپناوقار کھو رہا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران بی جے پی لیڈروں کی طرف سے استعمال کی جانے والی خوفناک اور نفرت انگیز زبان پر آر ایس ایس کی مسلسل خاموشی کی وجہ سے دیگر لوگوں میں بھی آر ایس ایس کا احترام کم ہوتا نظر آرہا ہے۔

سنگھ کے سربراہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ اپوزیشن لیڈروں کو بھی رواداری برقرار رکھنی چاہیے۔ ان کی بات ٹھیک ہے کہ کسی بھی پارٹی اور اس کے رہنما کو حدیں پار  نہیں کرناچاہئے، لیکن جیسا کہ معروف کہاوت ہے کہ دان گھر سے شروع ہوتا ہے۔بھاگوت کو دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنی تنظیم کے قریبی لوگوں پر کارروائی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

بھاگوت نے انتخابات کے دوران جان بوجھ کر یا انجانے میں خاموشی اختیار کی، حالانکہ لوگوں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے ووٹ کی طاقت سے لیڈروں کی انا کو کچل دیا، اور انتخابات میں بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو بری طرح نیچا دکھایا۔ یہاں تک کہ ایودھیا کے لوگوں نے حکمراں پارٹی کے جھوٹے پروپیگنڈے کو سمجھا اور بی جے پی امیدوار کو شکست دینے کے لیے سماج وادی پارٹی کے ایک دلت  امیدوار کی حمایت کی۔