منی پور: تشدد کے دور میں مسلم تنظیموں کا قابل ستائش قدم ،میتئی اور کوکی متاثرین  کی امداد میں سر گرم

نئی دہلی ،27جولائی:۔

منی پور جل رہا ہے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کیمپوں میں پناہ گزین ہیں ،اکثریتی ہندو میتئی اور اقلیتی عیسائی کوکی  برادری کے درمیان جاری تنازعہ کے درمیان انسانیت تباہی کے دہانے پر ہے ،ہر طرف آگ اور تشدد کا بازار گرم ہے ۔اس بحرانی صورت حال میں مسلمان مصیبت زدہ کوکی اور میتئی دونوں برادریوں کے لئے امن کے سفیر بن کر انسانی خدمات انجام دے رہے ہیں  ۔

انڈیا ٹو مارو سے وابستہ  سید احمد علی کی رپورٹ کے مطابق منی پور کی کل آبادی میں میتئی برادری کا حصہ تقریباً 53.5 فیصد ہے جبکہ 42 فیصد آبادی کوکی برادری کی ہے۔ باقی مسلمان اور دوسرے گروہ ہیں۔ دونوں گروپوں کے درمیان جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ریاست کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے ایک درج فہرست قبیلے کے کوکیوں نے منی پور ہائی کورٹ کے میتیوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے حکم کے خلاف احتجاج کیا۔

اس حکم کے بعد، کوکی لوگوں نے محسوس کیا کہ انہیں ایس ٹی ہونے کی وجہ سے جو مراعات ملتی ہیں، وہ میتی برادری کے لوگ جو اکثریت میں ہیں اور ریاستی حکومت کو کنٹرول کرتے ہیں، غصب کر لیں گے۔

جب 3 مئی کو دونوں برادریوں کے درمیان تشدد شروع ہوا تو کوکی اکثریتی علاقوں میں رہنے والے میتیئ اور میتئی اکثریتی علاقوں میں رہنے والے کوکی اپنی جان و مال  کے تحفظ کے لئے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ نفرت اس قدر بڑھ گئی کہ کئی واقعات میں پڑوسیوں نے بھی اپنے حریف دھڑوں کے پڑوسیوں پر حملہ کیا۔

منی پوری کے مسلمانوں کو، جنہیں پنگل کہا جاتا ہے اور میتئی کمیونٹی سے مذہب تبدیل  کر کے مسلمان ہوئے ہیں۔ مئی 1993 میں میتی ہندوؤں نے نشانہ بنایا تھا۔ اطلاعات کے مطابق 1993 کے تشدد میں تقریباً 140 مسلمانوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ مسلمانوں کو اپنی املاک کا بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

لیکن مسلمانوں میں ماضی میں ہوئے ظلم کو بھلا کر   میتئی اور کوکی کی مدد کے لیے آگے آئے اور اپنی حفاظت کو خطرے میں ڈال کر دونوں گروہوں کے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔

دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، مسلمانوں نے متاثرین کو خوراک، رہائش، کپڑے اور دیگر امدادی سامان کی پیشکش کی، چاہے وہ کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس عمل میں بہت سے مسلمانوں پر حملہ کیا گیا اور وہ زخمی ہوئے۔ تاہم کوئی مسلمان ہلاک نہیں ہوا۔

یہاں 4 مئی کے ایک واقعے کا ذکر کرنا ضروری ہے، جب ریاست کے دارالحکومت امپھال کے مسلم اکثریتی علاقے ہٹا گولاپتی میں کوکی برادری کے لوگوں نے پناہ مانگی تھی۔ 3000 سے زیادہ کوکی لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے میتی مسلمانوں نے کوکی کی  حفاظت کے لیے بہادری  کا مظاہرہ کرتے ہوئے  اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے، اپنی حفاظت کو خطرے میں ڈالا۔ اس کے بعد  مسلمانوں نے انہیں محفوظ سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دیا۔ اس کوشش میں ہٹہ گولاپتی کے مرد، خواتین اور بچوں نے اہم کردار ادا کیا۔ خواتین نے پناہ گزینوں کے لیے کھانا پکایا جب کہ مردوں اور بچوں نے کپڑے، کھانا اور دیگر ضروری سامان فراہم کیا۔

اسی طرح پڑوسی ضلع چوراچند پور میں میتی کے لوگ کوکتا گاؤں پہنچے جہاں تقریباً 20,000 مسلمان رہتے ہیں۔ اگرچہ مقامی مسلمان مالی طور پر ٹھیک نہیں ہیں، لیکن انہوں نے متاثرین کو کھانا کھلانے کے لیے اپنے گھروں  سے مساجد  میں اناج، سبزیاں اور دیگر ضروری سامان اکٹھا کیا۔

اپنی امدادی کوششوں کے دوران، مسلم سول سوسائٹی اور مسلم طلبہ تنظیمیں قریبی مسلم خاندانوں سے امدادی سامان اکٹھا کر کے پناہ گزین کیمپوں میں تقسیم کر رہی ہیں۔ منی پور کے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید احمد اور آل منی پور مسلم آرگنائزیشن کوآرڈینیٹنگ کمیٹی کے صدر ایس ایم جلال نے حال ہی میں میڈیا سے خطاب کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ایک باپ اور ماں کی اولاد کی طرح بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ تشدد نے دونوں برادریوں کے بقائے باہمی اور امن کو نشانہ بنایا ہے، جو ریاست منی پور کے قیام کے بعد سے امن سے رہ رہے  تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ "بین المذاہب فورم فار پیس اینڈ ہارمونی” کے بینر تلے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کئی بین المذاہب گروپس بھی آگے بڑھے ہیں۔ فورم نے امن کی اپیل کرنے والی میٹنگوں، ریلیوں اور دعاؤں کا اہتمام کیا ہے، جن میں جماعت اسلامی ہند، کیتھولک، بپٹسٹ ، انٹر نیشنل سوسائٹی فار کرشنا کانسش نیس، برہما کماریس اور وشنو گورو سمیت مختلف گروہوں کی شرکت   ہے۔  بحران کے اس وقت میں مسلم کمیونٹی اور بین المذاہب تنظیموں کی اجتماعی کوششیں منی پور میں امن اور مفاہمت کی امید کی کرن بن کر ابھری ہیں۔