ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ متاثرین کے اہل خانہ کیلئے ایک بڑا دن ہے
جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ بے گناہوں کو انصاف تومل گیا مگر متاثرین کی زندگیاں بربادکرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچائے بغیر انصاف ادھوراہے

نئی دہلی،21جولائی:
جمعیة علماءہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو انصاف کو سربلندکرنے والا ایک فیصلہ قراردیا، اورکہا کہ آج جو لوگ بے گناہ ثابت ہوئے ہیں ان کے اہل خانہ کے لئے یہ ایک بڑادن ہے، کیونکہ اس کے لئے انہیں سترہ برس تک انتظارکرناپڑا، یا 19برس انہوں نے امید اورناامیدی کی جس اندوہناک اذیت میں گزارہوں گے، ہم اس کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیةعلماءمہاراشٹرا کے لیگل سیل کی ایک اورتاریخی کامیابی ہے، کہ جب اس کے قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں 12 ایسے لوگوں کو باعزت رہائی ملی ہے، جن میں 5 لوگوں کو پھانسی اور7 کو عمر قید کی سزاہوچکی تھی اس کے لئے ہم اپنے وکلائ کا شکریہ اداکرتے ہیں۔ انہوں نے دن رات محنت کی اورعدالت میں ایسی مدلل بحث کی کہ استغاثہ کا ساراجھوٹ بے نقاب ہوگیا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلہ سے ہماری اس بات کی ایک بارپھر تصدیق ہوگئی جو ہم برسوں سے کہتے آئے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتارکرکے ان کی زندگیوں کو تباہ وبربادکرنا ایک بڑے کھیل کا حصہ ہے، ایسا کرکے نہ صرف بے گناہوں کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا جاتاہے بلکہ اس کے ذریعہ ایک پوری قوم کو بدنام اوررسوابھی کیاجاتاہے، ہم برسوں سے یہ مطالبہ بھی کرتے آئے ہیں کہ تفتیشی ایجنسیوں اورپولس کی جواب دہی طے کی جانی چاہئے، جب تک ایسا نہیں کیاجائے گا، نہ صرف دہشت گردی بلکہ دوسرے قوانین کی آڑمیں بھی بے گناہوں کی زندگیاں اسی طرح تباہ وبربادکی جاتی رہیں گی۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ آج جو ملک کے سیاسی حالات ہیں اس میں پولیس اورایجنسیوں کے لئے مسلمان آسان ٹارگیٹ ہے،لوکل ٹرین بم دھماکہ کے اس معاملہ پر ممتازقانون داں، جمعیۃعلماء ہند کے وکیل اوراوڈیشہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرلی دھرکا تبصرہ ہے کہ اس کیس میں جان بوجھ کر جانبدارانہ تفتیش کی گئی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں جہاں عوامی جذبات مشتعل ہوتے ہیں میڈیا ٹرائل کے ذریعہ کسی کو بھی مجرم بنادیا جاتاہے۔ پریس کانفرنس پہلے کی جاتی ہے ثبوت بعد میں تلاش کئے جاتے ہیں جسٹس مرلی دھرکا یہ تبصرہ ملک کے قانونی سسٹم کی اندرکی ساری کہانی بیان کردیتاہے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ کسی طرح کی جواب دہی کے فقدان کے نتیجہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کی مکمل چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ جس کو چاہے مجرم بنادے، نہ توان کا کوئی محاسبہ ہوگااورنہ ہی اس کے لئے ان سے کسی طرح کا کوئی سوال ہی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس چھوٹ نے انہیں بے لگام کردیا ہے جس کی بدترین مثال یہ معاملہ ہے کہ جب انصاف کے حصول میں 19 برس کا طویل عرصہ لگ گیا بے گناہ باعزت بری بھی ہوگئے مگر ان لوگوں سے کوئی بازپرس نہیں ہوئی جنہوں نے بارہ زندگیاں بربادکیں، اس کے لئے متاثرین کو کوئی معاوضہ بھی نہیں ملے گامولانا مدنی نے کہا کہ ہم اس فیصلہ کا تہ دل سے استقبال کرتے ہیں مگر ہماری نظرمیں یہ انصاف ادھوراہے جب تک جواب دہی طے نہیں کی جائے گی اور بے گناہوں کی زندگیاں تباہ کرنے والوں کو کوئی سزانہیں دی جائے گی اس افسوس ناک سلسلہ کا خاتمہ نہیں ہوگاقانون کی آڑمیں اسی طرح بے گناہوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہوتارہے گااورملک کا میڈیا ایک مخصوص فرقہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلاکر اسے بدنام کرتارہے گا۔
مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ بے قصورمسلمانوں کی زندگی سے کھلواڑکرنے والے آخرکہاں ہیں ان کے چہروں سے نقاب اٹھااب ضروری ہے، یہ صورت حال ملک میں مسلم اقلیتوں کے لئے بے حد پریشان کن ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ آج نہیں توکل حالات بدلیں گے اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس پر ازخودسوموٹونوٹس لینا چاہئے انہوں نے اس بات پر بھی سخت برہمی کا اظہارکیا کہ نام نہاد قومی میڈیا اکثرمتعصب الکٹرانک میڈیا مسلمانوں کی گرفتاری کے وقت طوفان کھڑاکردیتاہے اوران کے خلاف ٹرائل شروع کردیتاہے، جب یہی لوگ عدالت سے باعزت بری ہوتے ہیں تومیڈیاکو سانپ سونگھ جاتاہے یہ جانبدارانہ رویہ صحافت کے پیشہ سے خیانت ہے۔