ممبئی: رام نو می کی ریلی مسلمانوں کیخلاف نفرت ،گالی گلوج اور فحش نعروں میں تبدیل

نئی دہلی ،07 اپریل :۔
ملک بھر میں ہندو تہواروں کے دوران نکلنے والے مذہبی جلوس اب بڑی تیزی سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے علاوہ فحش تبصروں اور گالی گلوج میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔مذہبی تقدس کا کوئی خیال نہیں ہے صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تبصرے اور تقاریر ہی مذہبی جلوس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ۔گزشتہ روز رام نومی کے دوران ممبئی کے مغربی مضافات میں نکلنے والا جلوس اسی طرح کی ہنگامہ آرائی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک اسٹیج بن گیا۔
ممبئی کے چھترپتی شیواجی مہاراج بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر نکالا جانے والا رام نومی کا جلوس بھی کچھ اسی طرح کے نفرتی اسٹیج کی شکل اختیار کر گیا۔
رپورٹ کے مطابق اس مذہبی جلوس میں 20 سے 30 سال کے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے ۔ کچھ بوڑھے مرد اور چند عورتیں بھی ہجوم کا حصہ تھیں۔ اس دوران لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اشتعال انگیز نعرے اور نفرت انگیز گانوں کی آواز نے ماحول کو کشیدہ کر دیا۔اورنگ زیب کی قبر کھدے گی،جیسے نعرو ں کے علاوہ فحش گالیاں دی گئی اور مسلمانوں کو واضح طور پر دھمکیاں دی گئیں۔تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام عمل پولس اور انتظامیہ کی موجودگی میں ہوتا رہا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ایک آواز میں مسلمانوں کو گالیاں دیں اور فحش تبصرے کئے۔
وقفے وقفے سے، افراد نے اجتماع کو مزید اکسانے کے لیے مائیک اٹھائے۔ ’’جسکو چاہیئے افضل خان، اسکو بھیجو پاکستان‘‘ جیسے نعرے پورے جوش و جذبے سے لگائے گئے۔
پورے پروگرام میں پولیس کی موجودگی کے باوجود نفرت سے بھرے نعروں یا بیہودہ نعروں کو روکنے یا روکنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی۔ اس پورے معاملے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوا ہے جس پر متعدد صارفین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایک صارف نے لکھا۔ "جب رام نومی جیسا مقدس تہوار نفرت اور فحاشی کا ایک اسٹیج بن جاتا ہے، تو یہ صرف آستھاہی نہیں ناپاک ہوتا ہے – یہ ہماری قوم کی روح کو بھی ناپاک کرتاہے۔ ایک اور صارف نے تبصرہ کیا کہ ’’رام بھی سوچ ر ہے ہوں گے کہ یہ ہندو کہاں سے آئے ہیں۔‘‘
رام نومی یا ہندو تہواروں کے دوران نکلنے والے جلوسوں اس طرح کے نفرت انگیز اور اشتعال انگیز نعرے بازی کا یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے ۔ حالیہ برسوں میں، مذہبی جلوس تیزی سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے لیے فلیش پوائنٹ بن گئے ہیں، مذہبی علامتوں کو اکثر اقلیتی برادریوں کو مشتعل کرنے کے لیے ہتھیار بنایا جاتا ہے۔