ملک کے تمام ادارے آرایس آیس کے زیر اثر ،لڑائی جاری رہے گی: راہل گاندھی
نئی دہلی ،23ستمبر :۔
یوں تو کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی تو کئی مرتبہ آر ایس ایس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن انہوں نے حالیہ دنوں میں بیرون ملک دورے پر ایک بار پھر بھارت میں جمہوری نظام پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت بننے کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان اب ایک کمزور جمہوریت ہے۔
ناروے کی اوسلو یونیورسٹی میں طلباء کے ساتھ حال ہی میں بات چیت کے دوران انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندوستان کے تمام ادارے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے متاثر ہیں۔ سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسی ایجنسیوں کو ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ‘انڈیا’ مستقبل میں ایسا نہیں ہونے دے گا۔
راہل گاندھی نے حال ہی میں یورپ کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے اوسلو یونیورسٹی کے طلباء سے بھی بات چیت کی۔ انہوں نے کئی دوسرے پروگراموں میں بھی شرکت کی۔ اوسلو یونیورسٹی سے ان کا ویڈیو جمعرات کو کانگریس نے جاری کیا۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ ہندوستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے پہلی بات یہ سمجھنی چاہئے کہ 2014 تک ہندوستان میں جمہوریت ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والی سیاسی جماعتوں کے گروپ سے تعلق رکھتی تھی۔ غیر جانبدار ادارے تھے، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، میڈیا تک ہر ایک کے لیے رسائی، اور ہر ایک کے لیے مالی وسائل تک رسائی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2014 میں سب کچھ بالکل بدل گیا۔ ہم اب کسی سیاسی جماعت سے نہیں لڑیں گے۔ سارا کھیل بدل گیا ہے۔ ادارے آر ایس ایس سے متاثر ہیں۔ سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسی ایجنسیوں کو ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ وہ ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو بی جے پی کے نظریہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس لیے اب ہم کسی عام سیاسی مقابلے میں شامل نہیں ہیں۔
راہول گاندھی نے الزام لگایا کہ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یہ سچ ہے۔ تاہم، میرے نزدیک یہ ایک کمزور جمہوریت ہے۔ اب آپ کو اپنی آواز کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کو یہ کہنے کی اجازت نہیں ہے کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اب وہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو مواقع نہیں دیے جاتے:راہل نے کہا کہ میں اپنے ملک میں ایک خاص نظریہ کا دفاع کرتا ہوں، جو مہاتما گاندھی، گوتم بدھ اور گرو نانک کا نظریہ ہے۔ میں اس کے لیے لڑتا ہوں۔ میں لیڈر بنوں یا نہ بنوں یہ بعد کی بات ہے لیکن نظریے کی جنگ جاری رکھوں گا۔