ملک کی راجدھانی دہلی کے مسلمانوں کی تعلیمی ، اقتصادی اور سیاسی صورتحال ناگفتہ بہ

دہلی حکومت کے تحت خود مختار اقلیتی ادارے مسلمانوں کی ضرورتوں کی تکمیل میں پھسڈی،تعلیم،صحت اور روزگار کے میدان میں مسلمان دیگرطبقوں سے بہت پیچھے،ریسرچ رپورٹ میں انکشاف

نئی دہلی،02 مئی ۔
آج انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی ، انڈین مسلم انٹیلیکچوئل فورم کے ذریعہ مشترکہ طور پر دہلی کے مسلمانوں کی تعلیمی ، اقتصادی اور سیاسی صورتحال پر ریسرچ رپورٹ کا اجرا ہوٹل ریور ویو جامعہ نگر میں کیا گیا۔ جس میں میڈیا،اکیڈمی اور سماجی اور مذہبی تنظیموں سے جڑی ہوئیں معروف شخصیتوں نے پروگرام میں شرکت کی۔ ریسرچ اسٹڈی رپورٹ نے مسلمانوں کے روزگار ، تعلیم ، صحت اور رہن سہن کے حالات کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ دہلی گورنمنٹ کے اقلیتوں سے متعلق بجٹ اور ترقیاتی پروگراموں کا جائزہ بھی لیا گیاہے۔
رپورٹ کے مطابق دہلی کے مسلمان تعلیم، روزگار، صحت خدمات اور سرکاری سہولیات تک رسائی میں سب سے پیچھے ہیں۔ ان کی سیاسی نمائندگی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ متعددعلاقوں میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ یہ چونکا دینے والا انکشاف اس ریسرچ رپورٹ میں محققین نے کیا ہے ۔ یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چار پروفیسروں نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔ دہلی حکومت کے تحت چلنے والے خود مختار اقلیتی ادارے مثلاً دہلی وقف بورڈ ،اقلیتی کمیشن ،اردو اکیڈمی وغیرہ ادارے مسلمانوں کی ضرورتوں کی تکمیل میں نا کام ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق دہلی کے تمام مذہبی اقلیتی گروہوں میں مسلمان تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ مسلم معاشرے میں 14.79فیصد لوگ مکمل طور پر ناخواندہ ہیں۔ جبکہ 40.82فیصد مسلمانوں نے 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ جبکہ 13.97فیصد نے گریجویشن یا اس سے اوپر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ریسرچ کرنے والے پروفیسروں نے یہ ڈیٹا نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے راؤنڈ 75 کے ڈیٹا سے لیا ہے۔ اس سروے میں دہلی میں مسلم خواتین کی تعلیمی حالت انتہائی ابتر ہے۔ 30فیصڈ مسلم خواتین مکمل طور پر ناخواندہ ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق دہلی میں رہنے والی اقلیتی برادریوں میں عیسائی اور جین کمیونٹی کے 100فیصد بچے تسلیم شدہ اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ جبکہ مسلم معاشرے کے صرف 82فیڈ بچے ہی تسلیم شدہ اسکولوں میں جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دہلی میں تمام کمیونٹیز کے 86فیصد بچے تسلیم شدہ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، صرف 14% بچے تسلیم شدہ اسکولوں میں پڑھنے کے قابل نہیں ہیں۔ جبکہ مسلم معاشرے میں یہ تعداد 18فیصد ہے۔ اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم علاقوں سے اچھے اسکولوں کی دوری اور مسلمانوں کی خراب معاشی حالت کی وجہ سے ان کے بچے اچھے اسکولوں میں داخلے سے محروم ہیں۔


رپورٹ کے مطابق مسلم معاشرے میں ایسے 15فیصد بچے ہیں جنہوں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا، اس کے علاوہ 45فیصد لوگ ایسے ہیں جو اسکول تو گئے لیکن کسی وجہ سے پڑھائی جاری نہیں رکھ سکے، ایک بار اسکول چھوٹا ، پھر ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیا۔ صرف 39.66 فیصداس وقت دہلی کے اسکولوں میں مسلم بچے تعلیم حاصل کرتے پائے گئے ہیں۔ اسکول چھوڑنے والے بچوں سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ 25فیصد سے زیادہ پڑھائی میں دلچسپی نہیں رکھتے اور 30فیصد اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہیں۔ جبکہ 10.85فیصڈ بچے ایسے ہیں جنہوں نے پیسے کی کمی کی وجہ سے اسکول چھوڑ دیا کیونکہ ان کے والدین ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر پا رہے تھے ۔
رہائش کی بات کی جائے تو دہلی کے مسلمانوں کی حالت اس معاملے میں سب سے زیادہ خراب ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ شہری علاقوں میں رہنے والے مسلمان دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں سے زیادہ غریب ہیں۔ان کو روزگار کے سلسلے میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 43.8فیصد سے زیادہ تر مسلمان کم آمدنی والی صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ سرکاری ملازمتوں یا پرائیویٹ کمپنیوں میں مسلمانوں کا حصہ دہلی کے دوسرے مذہبی گروہ جین عیسائی بدھ مت کے مقابلے میں صرف 43 فیصد ہے۔
اقلیتوں کو ملنے والے اسکالرشپ میں مسلمانوں کا حصہ بھی سکھ، جین اور عیسائی برادریوں کے مقابلے بہت کم ہے۔ 2020-21 میں، صرف 17.70فیصد مسلم بچے دسویں جماعت تک اسکالرشپ حاصل کر پائے۔ جب کہ دسویں جماعت کے بعد پڑھنے والے صرف 23.27فیصد مسلم بچے اسکالرشپ حاصل کر پائے۔ اسکالرشپ کے اعداد و شمار کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسکالرشپ کے لیے درخواست دینے والے بچوں میں سے صرف ایک چوتھائی یعنی 25.06فیصد بچوں کو وظیفہ ملتا ہے۔
رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم میں ڈاکٹر اے آر اغوان، ڈاکٹر جاوید عالم خان ، ڈاکٹر خالد خان ، ڈاکٹر وسیم اکرم ، ڈاکٹرسہراب انصاری اور کلیم الحفیظ شامل ہیں۔ رپورٹ کے اجرا کے تقریب میں آشوتوش ، ارمیلیش، قمر آغا، یوسف انصاری ، ڈاکٹر ایم ایچ غزالی ، مجتبیٰ فاروق ، سلیم انجینئر ، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اور ابرار احمد شریک ہوئے ۔ پروگرام کے نظامت کی فرائض محمد احمد نے انجام دیا اور پروفیسر خواجہ ایم شاہد نے پروگرام کی صدارت کی۔