ملک کا دانشور طبقہ مذہب و ثقافت کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کو منہ توڑ جواب دے
ماہانہ پریس کانفرنس میں ملک میں مسلمانوں پر بڑھتے تشدد اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر جماعت اسلامی ہند کا اظہار تشویش، جماعت اسلامی ہند کےاعلیٰ سطحی وفد کا ضلع گر سومناتھ کا دورہ
نئی دہلی،10اکتوبر:۔
ملک میں مسلمانوں پر بڑھتے تشدد اور مساجد و مقابر پر حکومتی جبر سے اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں میں تشویش اور بے چینی پائی جا رہی ہے۔گجرات میں حالیہ دنوں میں سومناتھ میں انتظامیہ نے حکومتی سطح پر جس طریقے سے سیکڑوں سال قدیم مساجد،مقابر اور درگاہوں پر انہدامی کارروائی کی ہے اس سے نہ صرف گجرات میں بلکہ ملک بھر میں مسلمانوں میں انتظامیہ کے تئیں بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی معروف اور سرکردہ تنظیم جماعت اسلامی ہند نے بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مرکز جماعت میں منعقدہ پریس کانفرنس میں جموں وکشمیراورہریانہ میں انتخابی نتائج، مسلمانوں اورعبادت گاہوں پرتشدد وتضحیک، ’ون نیشن ون الیکشن‘اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جموں و کشمیر اور ہریانہ میں بننے والی نئی حکومت عوام کے حقیقی مسائل، اقتصادی ترقی اور جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور بغیر کسی تفریق کے سب کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان دنوں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف تشدد اور حملوں کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جھوٹے الزامات عائد کرکے مسلم نوجوانوں پر تشدد اوران کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں ضلع گرسومناتھ میں پانچ سو سالہ پرانے قبرستان، مسجد ار درگاہوں کو منہدم کردیا گیا۔
سومناتھ میں ہوئی انہدامی کارروائیوں کا زمینی جائزہ لینے والے جماعت کے اعلیٰ سطحی وفد میں شامل نائب امیر جماعت اسلامی ہند سلیم انجینئر اور قومی سکریٹری شفیع مدنی بھی کانفرنس میں موجود تھے۔
اس موقع پر سلیم انجینئر نے سومناتھ میں ہوئی غیر قانونی انہدامی کارروائی کی سرگزشت کو صحافیوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح تقریباً 200 ایکڑ کے وسیع و عریض علاقے میں پھیلی متعدد درگاہوں، مقبروں، مسجد، عیدگاہ اور قبرستان کو غیر قانونی طریقے سے منہدم کردیا گیا۔ آپ نے اس قسم کی انہدامی کاروائیوں کو سختی سے روکنے، منہدم عمارتوں اور مکمل احاطہ کی مذہبی حیثیت کو بحال کرنے اور متعلقہ عہدیداران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
امیر جماعت نے نفرتی بیانات کے حوالے سے کہاکہ "مسلمانوں کو جذباتی ٹھیس پہنچانے کے لیے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ تبصرے کیے جاتے ہیں مگر مجرمین کے خلاف کارروائی نہ ہونے سےان کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں ملک کے رہنماؤں، دانشوروں اور مذہبی شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے خلاف اٹھائیں اور مذہب و ثقافت کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کو منہ توڑ جواب دیں۔
’ ون نیشن ون الیکشن‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ "پارلیمانی واسمبلی انتخابات کے ایک ساتھ کرانے سے ریاست کے مخصوص مسائل حاشیے پر چلے جائیں گے ، ملک کا فیڈرل اسٹرکچر کمزور ہوگا اور علاقائی جماعتیں کمزور ہو جائیں گی نیز حکومت پر عوام کے سامنے جواب دہی کا دباؤ بھی کم ہوگا جو جمہوریت کے لیے انتہائی نقصاندہ ہے اس لیے جماعت ایک ملک ایک الیکشن کے تصور کی مخالفت کرتی ہے۔”
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ ’’ مشرق وسطیٰ کے حالات انتہائی تشویشناک بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل اور ایران کے درمیان بھیانک جنگ کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ جنگ نہ صرف خطہ بلکہ عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس تنازع کو فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کے امکانات کو ختم کرنے اور خطے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنے کے ایجنڈے کے تحت بھڑکایا جارہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے جاری نسل کشی کی جنگ کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں جانیں گئیں، خاص طور پر غزہ میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر عورتیں، بچے اور بزرگ ہیں۔ اسرائیل بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے کے علاوہ مزاحمتی تحریکوں کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے۔ اسرائیل کا یہ عمل صریح دہشت گردی اور بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کرنا چاہئے۔ اس پر پابندیاں عائد کرکے جنگی جرائم کے لیے جوابدہ قرار دیا جائے۔ جماعت اسلامی ہند، سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایک اتحادی فورس تشکیل دے جو فوری طور پر جنگ بندی کو نافذ کرنے اور اسرائیل کو بے اثر کرنے کی ذمہ داری ادا کرے تاکہ دنیا کو اس کی تباہ کاری سے بچایا جا سکے۔ جماعت، حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنی خاموشی توڑے اور اعتدال پسند عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر مزید کشیدگی کو روکے اور علاقائی امن و استحکام کی بحالی کی راہ ہموار کرے۔”