ملک میں نفرت انگیز جرائم کے خلاف ہیلپ لائن کی ضرورت: جان دیال
نئی دہلی،18 مارچ :۔
ملک میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بڑھتے حملوں،پر تشدد اور نفرت انگیز واقعات اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔آئے دن ہندو شدت پسند تنظیموں اور کارکنان کے ذریعہ کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں اور عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔کہیں گؤ کشی اور لو جہاد کے نام پو مسلمانوں پر حملے کئے جا رہے ہیں تو کہیں جبراً تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر عیسائیوں کے چرچوں اور رفاہ عامہ کے اداروں میں توڑ پھوڑ کیا جا رہا ہے۔اقلیتوں کے خلاف بڑھتے حملوں نے ملک کے دانشور طبقہ میں بے چینی پیدا کردی ہے ۔اور اس سلسلے میں دانشور طبقہ تشویش کا اظہار بھی کر رہا ہے اور متعدد تجاویز بھی پیش کر رہا ہے ۔
اسی سلسلے میں ملک کے ممتاز عیسائی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن جان دیال نے ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کی اطلاع دینے اور ان واقعات پر قابو پانے کیلئے ایک قومی ہیلپ لائن کی تجویز پیش کی۔
ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کا مستقبل موضوع پر انڈیالاگ فاؤنڈیشن کے ویبینار میں شرکت کرتے ہوئے، پروفیسر دیال نے کہا کہ ہیلپ لائن ملک میں نفرت انگیز جرائم کی اطلاع دینے اور روکنے کے لیے ایک بہترین طریقہ کار ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ”نیشنل انٹیگریشن کونسل کے ممبر کی حیثیت سے اپنے دور کے دوران، میں نے کچھ تجاویز حاصل کیں اور انہیں مسیحی برادری میں نافذ کیا۔ جب میں 1999 سے 2014 تک آل انڈیا کرسچن کونسل کا سکریٹری تھا تومیں نے نفرت پر مبنی جرائم کی اطلاع دینے کے لیے ایک ہیلپ لائن شروع کی ۔ عیسائیوں کے خلاف کسی بھی تشدد کی اطلاع ہیلپ لائن پر دی جا سکتی تھی۔ کوئی بھی پادری کال کر سکتا تھا اور ایک وکیل فون اٹھا کر اس تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔ ہمارے پاس یہ شمال مشرقی برادریوں میں خواتین کے لیے بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت بھی ایسی ہیلپ لائن قائم کرے۔ خواتین کے لیے ایک لائف لائن ہے حالانکہ یہ زیادہ کامیاب نہیں ہے۔
پروفیسر جان دیال نے متعدد ریاستوں میں بلڈوزر کلچر پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ ہم معاوضے کے لیے ایک جدید قانون چاہتے تھے۔ آپ کالونی میں بلڈوزر نہیں چلا سکتے۔ آپ دو سال تک لوگوں کو گرفتار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کلچر در اصل انصاف سے ماورا کارروائی ہے۔
انہوں نے اس موقع پر مکالمات اور مذاکراتی اداروں کی موت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں مکالمے کا ثقافتی اور سماجی پہلو تقریباً ختم ہو چکا ہے… میں قومی یکجہتی کونسل کا ایک معزز رکن تھا۔ اس میں وزرائے اعلیٰ، مرکزی وزراء اور 30 افراد تھے جو ممبر تھے۔ نریندر مودی بحیثیت چیف منسٹر سابقہ رکن تھے۔ انہوں نے کانگریس یا بی جے پی کی پوزیشن کی فکر نہیں کی۔ پارٹی لائنوں اور چیزوں کے پابند ہوئے بغیر کسی مسئلے پر بات کرتے تھے۔ اس طرح کے ادارے سماج سے غائب ہو چکے ہیں ۔ اس سے جو چیزیں سامنے آئیں ان میں سے ایک نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف قانون تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ تقریباً 20 سال پہلے تھا۔ ہم نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف ایک قانون پر بات کر رہے تھے۔جان دیال نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک ایسا قانون جو عیسائیوں، مسلمانوں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں، دلتوں اور آدیواسیوں کا دفاع کرتا ہے اس قانون کو آج ایک طبقہ ہندو مخالف قانون تصور کرتا ہے جو قابل افسوس ہے۔