ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 23 تک جا پہنچی ہے، جامعہ ملیہ میں ابھی بھی جاری ہے احتجاج
نئی دہلی، 22 دسمبر: ملک بھر میں جاری شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں کے دوران تشدد کے معاملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اب 23 تک جا پہنچی ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں یوپی میں ہوئی ہیں جہاں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی کارروائی میں 16 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جب کہ کرناٹک کے شہر منگلور میں دو افراد کی موت ہوگئی اور آسام سے پانچ اموات کی اطلاع ملی ہے۔
یوپی میں زیادہ تر اموات رام پور اور کانپور میں ہوئی ہیں۔ رام پور اور مظفر نگر میں پولیس پر گھروں میں داخل ہونے اور صورت حال پر قابو پانے کے بہانے املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی عائد ہیں۔
اگرچہ ابھی تک درست تفصیلات دستیاب نہیں ہیں تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کے سلسلے میں یوپی میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں رہائی منچ کے 75 سالہ ایڈووکیٹ کارکن شعیب خان اور سابق آئی پی ایس آفیسر ایس آر درپوری بھی شامل ہیں۔ رہائی منچ کے سکریٹری راجیو یادو نے کہا کہ یوپی پولیس اپنی من مانی سے گرفتاری کررہی ہے۔
اس دوران یوگی آدتیہ ناتھ کے مظاہرین سے ’’انتقام‘‘ لینے والے بیان پر انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، ان سے انتقام لینا نہیں۔
اس دوران اطلاعات کے مطابق اے ایم یو انتظامیہ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وی کے گپتا کو 15 دسمبر کو ہونے والے واقعات کی تحقیقات اور تین ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج، جو دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، آج لگاتار گیارہویں دن بھی جاری ہے۔