ملک اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا
الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو نے وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں متنازعہ بیان،طلاق وتعدد ازدواج پر تنقید کی
نئی دہلی ،09 دسمبر :۔
کسی بھی ملک میں نظم و نسق اور قانون و ضابطہ کی پاسداری ہی اس ملک کی ترقی اور استحکام کی کلید سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جب قانون کے رکھوالے اور قانون نافذ کرنے کے احکامات دینے والے قانون کو چھوڑ کر اکثریت کی طرفداری پر اتر آئیں تو عدالتوں کی حالت کیا ہوگی اس کا اندازہ ہم آسانی سے کر سکتے ہیں ۔ملک میں حالیہ دنوں میں جس طرح قانون کو پس پشت ڈال کر اکثریت کی خوہشات کو قانون کا جامہ پہنا دیا گیا ہے اس سے قانون پر عوامی اعتماد کمزور ہوا ہے۔اس کے باوجود شدت پسند اور اکثریت پسند جج جو عدالتوں میں موجود ہیں وہ کھلے عوام اکثریت کی خواشات کو ہی قانون کی وکالت کر رہے ہیں ۔ایسی صورت میں ہم ایسے ججوں سے قانون کی پاسداری کی امید کیسے کر سکتے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو نے اتوار کو وی ایچ پی کے پروگرام میں شرکت کی اورقانون کی بات نہ کر کے اکثریت کے خواہشات کو ہی قانون کا نام دینے کی وکالت کی ۔ان کا یہ انتہائی متنازع بیان ہر طرف موضوع بحث ہے۔ یہاں انہوں نے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ بھارت ہے، یہ ملک بھارت میں رہنے والی اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہندو مذہب میں اچھوت، ستی اور جوہر جیسی روایات کو ختم کر دیا گیا ہے، جب کہ مسلم کمیونٹی میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج اب بھی جاری ہے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق جسٹس شیکھر یادو نے کہا، ‘مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ یہ ہندوستان ہے، یہ ملک ہندوستان میں رہنے والی اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔ یہ قانون ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر یہ کہہ رہے ہیں۔ دراصل قانون اکثریت کے مطابق چلتا ہے۔ اسے خاندان یا معاشرے کے تناظر میں دیکھیں۔ صرف وہی قبول کیا جائے گا جو اکثریت کی بھلائی اور خوشی کا باعث ہو۔
جسٹس شیکھر نے اس موقع پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور تین طلاق اور تعدد ازدواج پر تنقید کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہندو صحیفوں جیسے شاستروں اور ویدوں میں خواتین کو دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے، اس کے باوجود ایک کمیونٹی کے افراد ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے، حلالہ یا تین طلاق پر عمل کرنے کے حق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘آپ ایسی عورت کی توہین نہیں کر سکتے جسے ہمارے شاستروں اور ویدوں میں دیوی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ چار بیویاں رکھنے، حلالہ یا تین طلاق کا حق نہیں مانگ سکتے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں طلاق ثلاثہ کہنے کا حق ہے اور خواتین کو نفقہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ حق کام نہیں آئے گا۔ یو سی سی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وی ایچ پی، آر ایس ایس یا ہندو ازم کی وکالت کرتی ہے۔ ملک کی سپریم کورٹ بھی اس بارے میں بات کرتی ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے جج نے یہ بھی کہا کہ ہندو مذہب میں بہت سی سماجی برائیاں تھیں جیسے بچپن کی شادی، ستی کی رسم اور لڑکی کا قتل، لیکن رام موہن رائے جیسے مصلحین نے ان روایات کو ختم کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ جب مسلم کمیونٹی میں حلالہ، تین طلاق اور اپنانے سے متعلق سماجی برائیوں کی بات آتی ہے، تو ان کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلم کمیونٹی میں کوئی پہل نہیں کی گئی۔