ملزم کا گھر گرانا آئین پر بلڈوزرچلانے جیسا ہے

ملک میں بلڈوزر انصاف کلچر پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس بھوئیاں کا سخت تبصرہ،ریاستی افسروں کے ذریعہ بلڈوزر کاررروائی کا دفاع کرنا انتہائی تشویشناک

نئی دہلی ،24 مارچ:۔

ملک میں بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بلڈوزر کارروائی ایک عام شکل اختیار کرتی جا رہی ہےجو انصاف اور عدل کے منافی ہے۔خاص طور پر اتر پردیش کی یوگی حکومت کسی بھی مسلم ملزم کے خلاف  بلڈوزر کارروائی کو انصاف کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کا چلن بنا دیا ہے۔جس  راستے پر بی جے پی کی دیگر ریاستی حکومتیں بھی چلنے میں فخر کر رہی ہیں۔جبکہ متعدد مرتبہ عدالت عظمیٰ اور متعدد عدالت عالیہ کے ججوں نے اس کی مذمت ہی نہیں اس پر روک لگانے کی سخت ہدایت دی ہے مگر کسی نہ کسی بہانے اس بلڈوزر کلچر کومسلمانوں اور اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ایک بار پھر سپریم کورٹ کے جج نے اس بلڈوزر کلچر پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اسے آئین کے خلاف قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس اجول بھوئیاں نے کئی ریاستوں میں حال ہی میں چل رہے بلڈوزر جسٹس پر سخت اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے ہفتہ کو کہا کہ ملزم شخص کی جائیدا د گرانا آئین پر بلڈوزر چلانے جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے حقوق کے ذریعہ ملزم افراد کے مکانوں کو بلڈوزر سے گرانا اور پھر ڈھانچوں کو غیر قانونی بتا کر کارروائی کا بچاؤ کرنا کافی تشویشناک ہے۔

بار اینڈ بینچ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس بھویاں نے کہا کہ اس گھر میں ٹھیک ہے ہم مانتے ہیں کہ یہ شخص ملزم ہو سکتا ہے یا وہ مجرم ہو سکتا ہے لیکن اس کی ماں وہاں پر رہتی ہے، اس کی بہن وہاں رہتی ہے، اس کی بیوی وہاں رہتی ہے۔ اس کے بچے وہاں رہتے ہیں ۔ان کا کیا قصور ہے؟ اگر آپ اس گھر کو منہدم کر دیتے ہیں تو وہ کہاں جائیں گے؟ ان کے سر کے اوپر سے چھت چھن لینا صحیح ہے میں یہ جوڑنا چاہوں گا کہ صرف وہ ہی کیوں؟ ملزم کا کیا؟ مجرم کا کیا؟ صرف اس لئے کہ کوئی شخص کسی جرم میں ملزم ہے یا مجرم ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا گھر منہدم کر دیا جانا چاہئے۔

واضح رہے کہ جسٹس بھوئیاں بھارتی ودیا پیٹھ نیو لا کالج پونے میں بول رہے تھے۔ اپنے خطاب میں جسٹس بھوئیاں نے عدلیہ میں اصلاح کی گنجائش کا بھی اشارہ کیا۔لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم کہیں غلط ہو گئے ہیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تبھی اصلاح ممکن ہوگا اور میرا یقین ہے کہ بھارتی عدالتی نظام میں سدھار کی کافی گنجائش ہے۔یہ دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے کہ سپریم کورٹ دنیا کا سب سے طاقتور کورٹ ہے۔