ملازمتوں میں6.8تک کم ہوئی مسلمانوں کی حصہ داری ، ہندوؤں کی تعداد میں 3 گنا اضافہ
مرکزی حکومت کے وزارت محنت نے جاری کیا اعداد و شمار،2019 کے بعد سے سب سے زیادہ 6.8 فیصد کی کمی ریکارڈ
نئی دہلی ،22 فروری :۔
ملک میں مودی حکومت کی آمد کے بعد مسلمانوں کی حالت سیاسی طور پر صفر ہو ہی گئی ہے مگر دیگر شعبوں میں بھی ان کی حصہ داری میں مسلسل گراوٹ درج کی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر روزگار اور ملازمت کے شعبوں میں گزشتہ پانچ سالوں میں مسلمانوں کی ریکارڈ تنزلی درج کی گئی ہے۔ملک بھر میں بے روزگاری اور عدم ملازمت کا برا حال ہے،تمام مذاہب کے افراد پریشان ہیں مگر مسلمانوں کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔اس کا انکشاف خود مرکزی حکومت کی وزارت محنت کی طرف سے جاری رپورٹ میں ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں ملازمتوں میں صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ دیگر مذہبی اقلیتی گروہوں کی حصہ داری بھی کم ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت کے تحت وزارت محنت کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کا باقاعدہ تنخواہ دار عملے کے طور پر کام کرنے والے لوگوں کے حصے میں مالی سال 2019 کے بعد سے 6.8 فیصد کی سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔اس کے بر عکس ہندوؤں کی حصہ داری میں 3 گنا اضافہ درج کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حصہ داری مالی سال 2018 -19 میں 22.1 فیصد سے کم ہو کر 2022-23 میں 15.3 فیصد رہ گیا۔ جبکہ عیسائی برادری میں 3.2 فیصد اور سکھوں میں 2.5 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ یہ کمی اکثریتی ہندو برادری میں 2.3 فیصد پر سب سے کم تھی۔
یونیورسٹی آف باتھ کے وزیٹنگ پروفیسر سنتوش مہروترا کہتے ہیں کہ شہری علاقوں میں نوکریاں دستیاب ہیں۔ لیکن، وبائی امراض کے بعد، مینوفیکچرنگ اور خدمات جیسے دونوں اہم شعبے روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑا، جو شہری علاقوں میں زیادہ تعداد میں ہیں۔
دینک بھاسکر کی رپورٹ ک مطابق مہروترا کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلمانوں کی مزدور طبقہ کے طور پر حصہ داری کی شرح میں معمولی اضافہ ہوا ہے ۔2018-19 میں32.3 فیصد تھی جو 2022-23 میں بڑھ کر محض 32.5 فیصد ہو گئی۔