معذور افراد کے حق میں سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ، نابینا شخص کو بھی جج بننے کا حق حاصل
مدھیہ پردیش جوڈیشیل سروس ایکٹ 1994کے ایکٹ کو خارج کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نابینا افراد بھی جوڈیشیل امتحان میں حصہ لینے کے حقدار

نئی دہلی ،04 مارچ :۔
گزشتہ روز پیرکو عدالت عظمیٰ نے ایک اہم فیصلہ سنایا جو تاریخی کہا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ نے پیر کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ نابینا لوگ بھی جج بن سکتے ہیں۔ معذوروں کے حقوق کو لے کر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نظام انصاف کو زیادہ جامع اور سہل بنانا ہے۔ ایسے میں نابینہ لوگوں کو جج بننے سے روکا نہیں جا سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے ایک قانون کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ نابینہ لوگ بھی جوڈیشیل امتحان میں حصہ لینے کے حقدار ہیں۔ اس پیشہ میں کچھ کم صلاحیت کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
جسٹس جے بی پاردیوالا اور آر مہادیون کی بنچ نے کہا کہ میڈیکل ماہرین کے ذریعہ کیے گئے کلینکل اسسٹمنٹ کسی معذور شخص کو اس کے حقوق سے محروم کرنے کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ بنچ نے آنکھوں میں خرابی اور نابینہ امیدواروں کو جوڈیشیل سروس میں تقرری سے باہر رکھنے والے مدھیہ پردیش جوڈیشیل سروس ایکٹ کے شرائط کے حصہ کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ وہ (نابینہ اور کم روشنی والے) ہندوستان کی جوڈیشیل سروس میں تقرری کے لیے درخواست دینے کے اہل ہیں۔
بنچ کی طرف سے فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس مہادیون نے کہا، "مدھیہ پردیش جوڈیشیل سروس ایکٹ 1994 کے قانون 6اے کو خارج کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کم روشنی والے اور نابینہ امیدواروں کو عدالتی سروس میں تقرری سے باہر رکھتا ہے۔
بنچ نے کئی پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد کہا کہ معذور لوگوں کے حقوق ایکٹ،2016 کے مطابق ان کی اہلیت کا جائزہ کرتے وقت انہیں مناسب سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔ بنچ نے کہا کہ معذور لوگوں کو جوڈیشیل سروس کی بھرتی میں کسی بھی طرح کے امتیاز کا سامنا نہیں کرنا چاہیے اور ریاست کو جامع ڈھانچہ یقینی کرنے کے لیے انہیں مثبت کارروائی فراہم کرنی چاہیے۔ بنچ نے فیصلہ میں آگے کہا کہ وہ آئینی ڈھانچے اور ادارہ جاتی نا اہلیت ڈھانچے سے نپٹتا ہے اور اس معاملے کو سب سے اہم تصور کرتا ہے۔