مشرق وسطیٰ سے مسئلہ فلسطین کو غائب کیا جا رہا ہے: ڈاکٹر فضل الرحمان
جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں ’ مشرق وسطیٰ کا بدلتا منظر نامہ اور مستقبل کے امکانات ‘ کے موضوع پر اجتماع عام کا انعقاد

مشتاق عامر
نئی دہلی ،20 مئی:۔
مشرق وسطیٰ کے حالات دن بہ دن بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں ۔اسرائیل کے خلاف لڑنے والی مزاحمتی قوتوں کو سلسلہ وار ختم کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں جاری نسل کشی اب ایک معمول کا حصہ بن گئی ہے ۔اسرائیل اس ’ ایب نارمل ‘ صورت حال کو نارمل میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔خلیجی ممالک کی ترجیحات میں اب مسئلہ فلسطین نہیں رہا ۔ عرب ممالک اپنے مفاد کی بنیاد پر مکمل طور سے منقسم ہو گئے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انڈین کونسل آف ورلڈ آفیئرس کے سینئر فیلو اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر ڈاکٹر فضل الرحمان نے کیا ۔جماعت اسلامی ہند کے میڈیا ہال میں ’مشرق وسطیٰ کا بدلتا منظر نامہ اور مستقبل کے امکانات ‘ کے موضوع پر ایک اجتماع عام کا انعقاد کیا گیا ۔اجتماع عام کی صدارت جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کی ۔اپنے خطبے میں ڈاکٹر فضل الرحمان نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دورے میں مسئلہ فلسطین کو غائب کر دیا گیا
۔ایک طرف ٹرمپ کا دورہ جاری تھا تو دوسری طرف اسرائیل نے غزہ میں قتل و غارت گری اور بڑھا دی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بعض میڈیا حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جار رہی ہے کہ ٹرمپ اور نتین یاہو کے درمیان غزہ کو لیکر کسی طرح کا کوئی اختلاف موجود ہے ۔یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے کیوں کہ غزہ اور فلسطین کو لیکر امریکہ اور اسرائیل میں کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا ۔ ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا کہ آج کی دنیا میں سفارت کاری کی زبان کافی بدل چکی ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی’ گرے زون ‘ نہیں بچا ہے ۔دنیا میں جو کچھ ہو رہے وہ بہت واضح اور کھل کر ہو رہا ہے ۔ خلیجی مملک کے حکمراں چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تصور سے فلسطین کو ہٹا دیا جائے ۔تاکہ غزہ میں ہونے والے قتل عام کو ’ نارمل ‘ بنایا جا سکے ۔مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے پڑوسی عرب ملکوں کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ عربوں پر ابراہم اکارڈ کا حصے بننے کے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔نصف سیریا پر اسرائیل کا قبضہ ہو چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس پورے خطے کو اسرائیل کے قبضے میں دینے کا منصوبہ ہے ، جس پر کام جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کے معاملے میں خلیجی ممالک نے جس طرح سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اس بھی خطے کی جیو پالٹیکل صورت حال پر کافی اثر پڑے گا ۔ اس تناظر میں خلیجی عرب ممالک اور اسرائیل کا مضبوط اتحاد بننے کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں ۔حالات ایسے بن رہے ہیں کہ خطے کا کوئی بھی ملک اب کھل کر فلسطین کی مدد کے لیے آگے آنے کو تیار نہیں ہوگا ۔ منصوبہ یہ ہے کہ پورے فسلطین کو اسرائیل کے حوالے کردیا جائے اور فلسطینی آبادی کو بے د
خلی پر مجبور کر دیا جائے ۔اس وقت پورے غزہ میں جبری بے دخلی کا خطرہ حقیقی طور پر موجود ہے ۔ ماضی میں فلسطین کے لیے جنگیں لڑنے والے مصر ، اردن اور سیریا کو بے اثر کر دیا گیا ہے۔ آنے والا وقت فلسطین کے لیے سخت ترین ہوگا ۔ اپنے صدارتی کلمات میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فاضل مقرر نے اتنے اہم موضوع پر بصیرت افروز تقریر کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک گلوبل امت ہیں۔امت سے متعلق تمام سوالات اہمیت رکھتے ہیں ۔ قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مایوس نہ ہونے اور راہ حق پر ثابت قدم رہنے کا حکم دیا ہے ۔ مشرق وسطیٰ کے حالات سے رو برو ہونے کے بعد ہمیں مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی ہی تمام مسئلے کا حل ہے ۔ہمیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہے اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنی ہے ۔پروگرام کے آخر میں سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔شرکا نے فلسطین اور مشرق وسطیٰ سے متعلق مختلف سوالات کئے ، جن کا جواب مقرر کی طرف سے دیا گیا ۔جلسے میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر انجئیر سلیم ، سکریٹری محمد احمد ، سکریٹری شبیر احمد ، ریڈینس کے چیف ایڈیٹر اعجاز اسلم نے شرکت کی ۔پروگرام میں معززین شہر کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ و نوجوان شا مل ہوئے ۔جلسے کی نظامت ظہیر احمد نے کی ۔