مسلم پرسنل لا میں مداخلت اور مساجد و مدارس کو نشانہ بنانے کے پس پردہ ووٹ بینک کی سیاست

جماعت  اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں حکومتی سطح پر مسلمانوں کے خلاف کی جارہی کارروائی کی مذمت،غزہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اظہار تشویش

نئی دہلی،03 مارچ:۔

ملک میں مساجد ،مدارس اور شریعت پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکنے کے لئے متعدد قوانین حکومتوں کے ذریعہ وضع کئے جا رہے ہیں جو مسلمانوں کے لئے باعث تشویش ہیں۔اترا کھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہو یا پھر آسام میں مسلمانوں کی شادیوں کے رجسٹریشن قانون کے خاتمے کا اعلان ہو یہ تمام حکومتی اقدامات مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت ہے ۔ملک کی معروف ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے مسلمانوں کے خلاف حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کو ووٹ بینک کی سیاست قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔

گزشتہ روز2مارچ بروز ہفتہ جماعت اسلامی ہند کے ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس میں جماعت سلامی ہند کے عہدیداران نے   مسلم پرسنل لا، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن، غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی حکومت کے خلاف جنگی جرائم جیسے مسائل پر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ مسلم پرسنل لا میں آسام اور اتراکھنڈ  حکومت کی مداخلت پر جماعت اسلامی کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند مسلم شادیوں اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو آسام سرکار کی طرف سے منسوخ کرنے کے فیصلے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ فی الحال ریاست میں مسلم شادیوں اور طلاقوں کے لئے مذکورہ ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا عمل حکومت کے مجاز قاضیوں ( مسلم علماء) کے ذریعہ انجام پاتا ہے ، لیکن اب آسام کے مسلمانوں کو 1954 کے ’اسپیشل میرج ایکٹ ‘کے تحت اپنی شادیاں درج کرانی ہوں گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہے بلکہ اسلاموفوبک رویے کی طرف ایک واضح اشارہ بھی ہے۔ گرچہ آسام کی حکومت کہتی ہے کہ اس اقدام کا مقصد چائلڈ میریج ( بچوں کی شادیوں) کو روکنا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا اصل مقصد ووٹ بینک کی سیاست اور عام انتخابات سے قبل مسلم مخالف سرگرمیاں دکھا کر لوگوں کو پولرائز کرنا ہے۔

اسی کے ساتھ جماعت اسلامی ہند اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ ( یو سی سی ) کے نفاذ کی مخالفت کرتی ہے۔ اس فیصلے کی رو سے ہر مذہب کے الگ الگ پرسنل لا کی جگہ پر ’ یو سی سی‘ پرسنل لا کا ایک ایسا سیٹ پیش کرے گا جو مذہب کی پروا کئے بغیر ہر شہری پر لاگو ہوگا۔ تمام مذاہب کی لڑکیوں کی شادی کے لئے یکساں عمر، مردوں اور عورتوں کو وراثت کے مساوی حقوق سمیت ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کا رجسٹریشن لازمی ہوگا۔

اس موقع پر سیاست میں گرتے اخلاقی اقدار پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ حالیہ راجیہ سبھا کے انتخابات میں جس طریقے سے ہارس ٹریڈنگ کی گئی اور کراس ووٹنگ ہوئی وہ سیاسی طور پر اخلاقی زوال  کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

قدر پر مبنی سیاست کے خاتمے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے  پروفیسر سلیم نے سیاست میں اخلاقی معیارات کی ضرورت پر روشنی ڈالی، اس بات پر زور دیا کہ منتخب عہدیداروں کو عوام کا اعتماد برقرار رکھنا چاہیے۔پروفیسر سلیم نے کہا کہ صرف قدر پر مبنی سیاست ہی ہم آہنگی کو فروغ دے سکتی ہے، انصاف اور مساوات کو یقینی بنا سکتی ہے اور آئینی اصولوں کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ "ہمیں جمہوری اخلاقیات کی قیمت پر وژن یا نظریے سے محروم موقع پرستی کو ہوا دینے والی بے لگام پیسے کی طاقت کو روکنا  ہوگا۔

پریس کانفرنس کے دوران جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر پروفیسر سلیم خان نے کہا کہ وزارت برائے اقلیتی امور کے حکم پر مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کئے جانے پر جماعت اسلامی ہند اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے پاس فنڈز کی کل دستیابی 30 نومبر 2023 تک 403.55 کروڑ روپے کی لیابلیٹی کے ساتھ 1073.26 کروڑ روپے، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پاس 669.71 کروڑ روپے دستیاب ہیں۔ وزارت برائے اقلیتی امور نے اب اس سرپلس کو ہندوستان کے ’ کنسولیڈیٹیڈ فنڈ ‘ میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جماعت کا خیال ہے کہ یہ اقدام ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک شدید دھچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے ہندوستانی مسلم کمیونٹی اقتصادی ترقی اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلی جارہی ہے۔

اس دوران  پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کے عہدیداران نے  فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کی بھی مذمت کی ۔انہوں نے کہا کہ غزہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر جماعت کو گہری تشویش ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ جلد ہی عارضی جنگ بندی ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 30 ہزار فلسطینی شہید اور 70 ہزار زخمی ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کی قومی سکریٹری رحمت النساء نے کہاکہ جماعت اسلامی ہند حراستی عصمت دری کی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتی ہے جیسا کہ تازہ ترین ’ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ ( این سی آر بی ) کے اعدادو شمار میں انکشاف کیا گیا ہے۔ ’این سی آر بی‘ کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 تا 2022، حراست میں عصمت دری کے 270 سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مجرمین شامل ہیں ، جن میں پولیس اہلکار، سرکاری ملازمین، مسلح افواج کے ارکان کے ساتھ ساتھ جیلوں، ریمانڈ ہومز اور اسپتال کے عملہ شامل ہیں۔ ان عہدوں پر فائز افراد کا اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عورت کے ساتھ زیادتی کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے مضبوط قانونی ڈھانچہ اور ادارہ جاتی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت کو ان مسائل کو جامع انداز میں حل کرنے کے لئے فوری ایکشن لینا چاہئے۔ اس منفی سماجی طرز عمل میں تبدیلی کو یقینی بنانے کے لئے قانونی اصلاحات ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتر تربیت اور جوابدہی کے لئے مضبوط میکانزم کی ضرورت ہے۔