مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد کی لا ءکمیشن کے ارکان سے ملاقات ،یونیفارم سول کوڈ نا قابل قبول قراردیا

جسٹس (ریٹائرڈ) اوستھی نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ ایسی کوئی خاطر خواہ تبدیلی تجویز نہیں کریں گے جس سے شرعی قانون کی بنیادی خصوصیات کو تبدیل کیا جاسکے

نئی دہلی،25اگست :۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک وفد نے بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی قیادت میں لاء کمیشن کے چیئرمین، ممبران اور افسران سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ وفد نے لا کمیشن کے سامنے یو سی سی کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا اور لا کمیشن کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا۔  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے لا کمیشن آف انڈیا کو واضح طور پر بتایا ہے کہ مسلمانوں کے لیے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) قابل قبول نہیں ہے۔

بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے بتایا ہے کہ وفد کی قیادت بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ کر رہے تھے۔ جبکہ وفد میں ڈاکٹر سید علی محمد نقوی، اور انجینئر سید سعادت اللہ حسینی، امیر جماعت اسلامی ہند، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالا، مولانا اصغر علی امام سلفی مہندی، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ،ڈاکٹر مولانا فضل الرحیم مجددی ،مکرم احمد شاہی امام مسجد فتح پوری، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد چیف ایڈیٹر لاء جرنل، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ترجمان بورڈ، پروفیسر مونسہ بشریٰ ممبر ایگزیکٹو بورڈ، ایڈوکیٹ نبیلہ جمیل ممبر بورڈ شامل تھے۔

بورڈ کے ترجمان نے کہا کہ یہ میٹنگ لا کمیشن کے چیئرمین کی دعوت پر ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ جب چیئرمین لاء کمیشن نے یو سی سی پر بورڈ کی رائے جاننا چاہی تو چیئرمین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے انہیں اس بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں، انہوں نے کہا کہ جس ملک میں مختلف مذاہب اور ثقافت کے لوگ رہتے ہیں وہاں سب کے لیے یکساں سول بنانا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے، اسی لیے یہ ممکن نہیں کیونکہ ہر طبقے اور مذہبی گروہ کو اپنے رسم و رواج سے بڑا لگاؤ ہوتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے۔ اس کے لیے کوئی بھی قانون جو قرآن و سنت سے مختلف ہو ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ 21ویں لا کمیشن نے ہمارے سامنے کئی سوال رکھے تھے اور کمیشن کے ساتھ ملاقات میں ہم نے ان کے سوالوں کا جواب دے کر انہیں مطمئن بھی کیا تھا۔ اس کے بعد یہ معاملہ رفع دفع کر دیا گیا تھا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ کمیشن بھی ہمارے جواب سے مطمئن ہوگا

جسٹس (ر) اوستھی نے کچھ مخصوص سوالات اٹھائے جیسے: کیا اسلام میں شادی کے لیے کوئی خاص عمر مقرر ہے، نکاح حلالہ اور متعہ شادی پر پرسنل لاء بورڈ کا کیا موقف ہے اور صنفی انصاف پر آپ کیا کہتے ہیں؟

بورڈ کے صدر نے وضاحت کی کہ اسلام میں شادی کے لیے کوئی خاص عمر مقرر نہیں ہے۔ اگر میاں بیوی دونوں شادی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو وہ نکاح کر سکتے ہیں۔ دیگر مسائل پر بھی بورڈ نے شرعی موقف کی وضاحت کی۔

بورڈ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جسٹس (ریٹائرڈ) اوستھی نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ ایسی کوئی خاطر خواہ تبدیلی تجویز نہیں کریں گے جس سے شرعی قانون کی بنیادی خصوصیات کو تبدیل کیا جاسکے۔ کمیشن کا کردار صرف تجاویز دینا ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ بل کو حتمی شکل دے اور اسے بحث اور منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کرے۔