مسلم پرسنل لاء بورڈ کا “ہم دو ہمارے بارہ “نامی فلم پر پابندی کا مطالبہ

فلم کو انتہائی لغو، لچر، گمراہ کن، فرقہ وارانہ،ملک کی سالمیت اور بھائی چارہ کو نقصان پہنچانے والی اور اسلاموفوبک قرار دیا

نئی دہلی،02 مئی :۔

فلموں کے ذریعہ سماج میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پر مبنی فلم ہم دو ہمارے بارہ پر پابندی کا مطالبہ مختلف سماجی اور مذہبی تنظیموں نے کیا ہے اب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی حکومت سے ایسی اسلام فوبیا پر مبنی فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔بورڈ نے ایک ریلیز میں کہا کہ  "ہمارے بارہ” جیسی فلموں کو انتہائی لغو، لچر، گمراہ کن، فرقہ وارانہ، اشتعال انگیز ،کذب و افتراء  پر مبنی،ملک کی سالمیت اور بھائی چارہ کو نقصان پہنچانے والی اور اسلاموفوبک مانتا ہے- بورڈ  حکومت  سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس فلم کی نمائش پر فوری پابندی لگائے-

مسلم پرسنل بورڈ  کے ترجمان  ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں اس بات پر انتہائی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا کہ کس طرح فلم سنسر بورڈ نے اس لغو، گمراہ کن، اشتعال انگیز اور ملک کے ایک فرقہ کو بدنام کرنے والی فلم کی نمائش کی اجازت دی ہے۔ اس سے خود سنسر بورڈ کی غیر جانب داری پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے- فلم کے ٹائٹل، اس کے تھیم، اس کی پوری کہانی اور مکالموں کے ذریعہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی شبیہ  ہی بگاڑنے کی کوشش نہیں  کی گئی بلکہ یہ فلم مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات پر بھی جارحانہ حملہ کرتی ہے-

بورڈ  کے ترجمان نے کہا یوں تو ہندوستانی فلموں میں کئی بار اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کو مسخ کیا گیا تاہم ان دنوں تو ایسا لگ رہا جیسے ایسی بدنام زمانہ فلموں کی باڑھ سی آگئی ہو۔ کیرالہ اسٹوری اور کشمیر  فائلس کے ذریعہ مسلمانوں کو دہشت گرد اور اسلام کو دہشت کو فروغ  دینے والے مذہب کے بطور پیش کیا گیا- اب اس فلم کے ذریعہ قران مجید کی ایک آیت کو توڑ مروڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلام میں  عورت ایک بے وقعت مخلوق ہے۔

انہوں  نے آگے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مردم شماری کے سرکاری اعداد و شمار یہ بتارہے ہیں کہ مسلمانوں کی شرح  پیدائش بہت تیزی سے اورمسلسل گھٹ رہی ہے لیکن ہمارے بارہ جیسی فلمیں اس کے برعکس اکثریت کے دلوں میں مسلم آبادی کے اضافہ کا خوف  پیدا کررہی ہیں۔

ڈاکٹر الیاس نے مطالبہ کیا کہ ہمارے بارہ جیسی شر انگیز، من گھڑت اور اسلاموفوبک فلم پر فوری پابندی لگائی جائے اور فلم کے پرو ڈیوسر،  ڈائریکٹر اور کرداروں پر ایک طبقہ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔