مسلم طلباء کو نماز جمعہ کیلئے جانے کی اجازت دینے پر اتراکھنڈ میں ٹیچر معطل

وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنان کے ذریعہ ہنگامہ کرنے کے بعد تعلیمی محکمہ نے کارروائی کی

نئی دہلی ،25 دسمبر :۔

اترا کھنڈ میں اسلاموفوبیا عروج پر ہے۔مسلمانوں کے ذریعہ گھر ،دکان ،یا اسکول کے کسی کونے میں نماز پڑھ لینا بھی شدت پسندہندو تنظیموں کو برداشت نہیں ہے۔اسکول میں ایک ٹیچر کے ذریعہ کچھ مسلم بچوں کو ایک دو گھنٹے کیلئے جمعہ کے دن گھرجانے کی اجازت دینا بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے شدت پسندوں کو برداشت نہیں ہوا اور اسکول ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا اور انتظامیہ نے بھی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ٹیچر کو معطل کر دیا۔

معاملہ اتراکھنڈ کے کھتاڑی   گورنمنٹ انٹر کالج  کا ہے۔ جہاں  ایک استاد کو مسلم طلباء کو جمعہ کی نماز میں شرکت کے لیے مختصر چھٹی دینے کے بعد معطل کر دیا گیا۔اسکول میں انچارج پرسنپل کے طور پر خدمات انجام دے رہے تلک چندر جوشی نے مسلم طلبا کو دو گھنٹے کیلئے گزشتہ جمعہ کو نماز کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کارکنان نے اسکول پہنچ کر ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اسکول ضابطہ کی خلاف ورزی کے ساتھ مسلمانوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا جس میں مذکورہ ٹیچر نے وضاحت بھی کی کہ مسلم بچے جمعہ کو اسکول نہیں آتے ہیں ۔ اسکول میں حاضری کو بہتر کرنے کیلئے جمعہ کے دن دو گھنٹے کی چھٹی دی گئی تاکہ جمعہ کے بعد طلبا واپس اسکول آ جائیں ۔

 تاہم، وشو ہندو پریشد (VHP) اور بجرنگ دل جیسے گروپوں نے احتجاج کیا، اسکول پر تعلیمی پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے اور ایک برادری کی حمایت کرنے کا الزام  عائد کیا۔وی ایچ پی لیڈر انیل شرما نے دعویٰ کیا کہ ’’یہ کھلم کھلا خوشامد ہے اور تعلیمی غیرجانبداری کو نظر انداز کرناہے۔

 

ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن نے  معاملے میں کارروائی کرتے ہوئے جوشی کو معطل  کرنے کا حکم دیا۔  انہوں نے ملازمین کے کنڈکٹ رولز، 2002 کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے کارروائی کو جواز فراہم کیا۔ سیکنڈری ایجوکیشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر مکل کمار ستی نے تحقیقات کے لیے جوشی کی معطلی کی تصدیق کی۔ڈاکٹر ستی نے کہا، "استاد انکوائری کے مکمل ہونے تک چیف ایجوکیشن آفیسر کے دفتر سے منسلک رہیں گے۔

استاد کی معطلی پر رام نگر میں مسلمانوں نے تنقید کی ہے۔ مقامی رہنما فیاض حسین نے کہا کہ آئین اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ نماز کے وقفے کی اجازت دینا خلاف ورزی نہیں بلکہ ہندوستان کے تنوع کا اعتراف ہے۔متاثرہ طلباء کے والدین نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا۔  ایک سر پرست  نے کہا، ’’ہمارے بچوں کو ان کے مذہب پر عمل کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

معروف صحافی عائشہ خان نے کہا، "مسلمانوں  کے ذریعہ عبادت  اور عمل کی  جانچ پڑتال کی جاتی ہے، جبکہ ہندو رسومات کومعمول بنایاجا رہا ہے۔

قانونی ماہرین  نے بھی اس سلسلے میں دلیل دی ہے۔ وکیل سلمان قریشی نے کہا، "طلبہ کو نماز کے لیے وقت دینا آئینی حقوق کے مطابق ہے اور شمولیت کو فروغ دیتا ہے۔  سماجی کارکن  خالد احمد نے کہا، "یہ بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی عکاسی کرتا ہے جو ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کو ختم کر رہا ہے۔