مسلم ریزرویشن:راجستھان اور یو پی حکومت کا انتخابات کے بعد جائزہ لینے کا اعلان
کولکاتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی شدید جارحانہ موڈ میں،پچھلی حکومتوں کے ذریعہ مسلم ذاتوں کو اوبی سی میں شامل کئے جانے کی تحقیقات کرنے کا اعلان
نئی دہلی ،25مئی :۔
لوک سبھا 2024 کا انتخاب اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے،سات مرحلوں میں ہونے والی پولنگ کا آج چھٹے مرحلے کے لئے ووٹنگ جاری ہے،صرف آخری مرحلہ یکم جون کے بعد انتخابات ختم ہو جائیں گے لیکن انتخابات کے اختتام کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ریزر ویشن کا معاملہ بھی گرم ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے جانے کو لے کر جم کر اپوزیشن جماعتوں کونشانہ بنایا جا رہا ہے۔خود وزیر اعظم نے ہر انتخابی جلسے میں اس مسئلے کو اٹھا کر ہندو اکثریت کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی متعدد ریلیوں میں چار سو پار سیٹیں دینے کی بات کرتے ہوئے مسلمانوں کے ریزرویشن ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
حالیہ دنوں میں مغربی بنگال میں ممتا حکومت کے ذریعہ2010 سے ا ب تک 70 سے زائد مسلم برادریوں کو او بی سی زمرے میں شامل کئے جانے کے فیصلے کو ہائی کورٹ کی جانب سے رد کئے جانے کے بعد بی جے پی جارحانہ طریقے سے مسلمانوں کو ریزرویشن مسئلے پر حملہ آور ہے ۔اب معاملہ مغربی بنگال سے آگے بڑھ چکا ہے ۔بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں اتر پردیش اور راجستھان میں بی جے پی حکومت کے نمائندوں نے اس مسئلے پر لوک سبھا انتخابات کے بعد جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
راجستھان میں سماجی انصاف معاملوں کے وزیر اویناش گہلوت نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت او بی سے کوٹے سے مسلمانوں کو دیئے گئے ریزر ویشن کا جائزہ لے گی ۔ گہلوت نے کہا ہے کہ اپنی خوشامد کی سیاست کے سبب کانگریس ن راجستھان میں 14 مسلم ذاتیوں کو 1997 سے2013 کے درمیان او بی سے کوٹے کے اندر ریزرویشن دیا تھا۔گہلوت نے کہا کہ ہمارے پاس سارے سرکلرز اور طے وقت کے اندر ہمارا محکمہ اور حکومت اس کا جائزہ لے گی ۔گہلوت نے کہا کہ آئین میں مذہب کی بنیاد پر کسی بھی ذات یا برادری یا طبقے کو ریزرویشن دیئے جانے پر پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کو اس سلسلے میں بہت ساری شکایات موصول ہوئی ہیں اور ہمارا محکمہ ان شکایات کی جانچ کر رہا ہے۔وزیر نے کہا کہ اس معاملے کی جانچ کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل دی جائے گی۔
دریں اثنا اتر پردیش کی یوگی حکومت نے بھی اس پر غور کرنے کی بات کہی ہے۔اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ حکومت ریاست میں پچھلی حکومتوں کے ذریعہ دیگر پسماندہ طبقات(او بی سی)
زمرے کے تحت مسلم برادریوں کو دیے گئے ریزر ویشن کی مکمل جانچ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہئیں۔
کیشو پرساد موریہ نے کہا کہ کانگریس، سماج وادی پارٹی، ٹی ایم سی اور ہندوستان کی دیگر پارٹیاں ہمیشہ او بی سی کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ انہیں دھوکہ دیتے ہیں۔ بنگال میں او بی سی سرٹیفکیٹ 2010-2024 تک بنگال میں دراندازوں اور مسلمانوں کو دیے گئے۔ یہ او بی سی برادری کے سینے میں چھری کی طرح تھا۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ دوسری ریاستوں میں بھی اسی طرح کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اتر پردیش میں، ہم اس کے بارے میں بھی تفصیلی جائزہ لیں گے۔ ہم کسی کو او بی سی ریزرویشن چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے۔
نائب وزیر اعلیٰ نے پچھلی حکومتوں پر الزام لگایا کہ وہ ایک مخصوص کمیونٹی کے ووٹ بینک کو محفوظ بنانے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ان کے تمام کالے کرتوت سامنے آ جائیں گے۔ سابقہ ایس پی، بی ایس پی، یا کانگریس حکومت میں جو بھی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ان کی تحقیقات کی جائیں گی۔ آئین مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی اجازت نہیں دیتا۔ منڈل کمیشن کی رپورٹ میں کئی مسلم فرقوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ میری ذاتی سفارش ہے کہ رپورٹ کی بھی چھان بین کی جائے۔
واضح رہے کہ مغربی بنگال میں 2010 کے بعد جاری کردہ او بی سی سرٹیفکیٹ کو منسوخ کرنے کے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی رہنماؤں نے مسلمانوں کے ریزرویشن کے مسئلہ کو بڑے پیمانے پر اٹھایا ہے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور او بی سی ریزرویشن کو جاری رکھنے کا عزم کیا۔ انہوں نے ضرورت پڑنے پر اعلیٰ عدالتوں میں فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے تیار ہونے کا عندیہ دیا۔
خیال رہے کہ حالانکہ مسلم ذاتوں کو ریزریوشن کے زمرے میں شامل کرنے کو لے کر بی جے پی کے اعتراض پر کہا جا رہا ہے کہ مسلم ذاتوں کو ریزر ویشن دینے کے پس پردہ مذہب بنیاد نہیں ہے بلکہ ان کی پسماندگی بنیاد ہے۔کیونکہ اگر مذہب کی بنیاد پر ریزر ویشن ہوتا تو تمام مسلمانوں کو ریزرویشن کے زمرے میں شامل کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہے صرف ان ذاتوں کو او بی سی زمرے میں شامل کیا گیا ہے جو مسلمانوں میں پسماندہ اور پچھڑا ہیں ۔