مسلم خواتین کے تاریخی کردار کو کیا جا رہا ہے نظر انداز

جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین کے زیر اہتمام ’ہندوستانی معاشرے میں مسلم خواتین کے کردار‘ پر قومی کانفرنس میں شرکاء کا اظہار خیال     

 

نئی دہلی،19 جولائی :۔

جماعت اسلامی ہند  کے شعبہ خواتین کی جانب سے’ ہندوستانی معاشرے میں مسلم خواتین کے کردار ‘ کے موضوع پر ایک آن لائن قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ اس کانفرنس میں کئی ممتاز خاتون دانشوروں اور سماجی کارکنان نے شرکت کی ۔ مقررین نے مسلم خواتین کی اُن غیر معمولی خدمات پر روشنی ڈالی جو اب تک نظر انداز کی جاتی رہی ہیں ۔کانفرنس میں شرکت کرنے والی خواتین نے ہندوستان میں مسلم خواتین کی سماجی، تعلیمی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں غیر معمولی خدمات کا جائزہ لیا ۔کانفرنس کی صدارت جماعت اسلامی ہند کی قومی سیکریٹری اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن رحمت النساء اے نے کی۔

اپنے صدارتی کلمات میں رحمت النساء اے نے کہا کہ دنیا کے بدلتے حالات پر غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ تاریخ کو صرفHis-History نہ بننے دیں۔ انہوں نے موجودہ دور میں تاریخ کے مطالعے کی اہمیت پر زور دیا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب حکومتی سطح پر  تاریخ کو مسخ کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اپنے خطاب میں رحمت النساء  نے مسلم خواتین کے انفرادی اور اجتماعی کردار کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ خواتین چاہے معروف ہوں یا غیر معروف ، براہ راست یا بالواسطہ، ہر دور میں انہوں نے معاشرے کی تعمیر نو میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔  رحمت النساء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہماری حقیقی ہیروئنز کی زندگیوں پر مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اُن کی خدمات کو منظر عام پر لایا جا سکے۔

کانفرنس میں کلیدی خطبہ جنوبی نیو ہیمپشائر یونیورسٹی اور سینٹ لیو یونیورسٹی میں انڈیا فیکلٹی کی سپروائزر ڈاکٹر سنگیتا سکسینہ نے پیش کیا ۔ انہوں نے بہار اور بنگال کی مستند تاریخی دستاویزوں کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم خواتین کی ان خدمات کا واضح نقشہ پیش کیا جو انہوں نے آزادی ہند کی جدوجہد، تعلیمی شعبے، سماجی اصلاحات، ادب اور تجارت  کے میدانوں میں انجام دیں ہیں۔ ڈاکٹر سنگیتا سکسینہ نے بیگم حضرت محل سے لے کر زہرا کلیم تک مسلم خواتین کے تاریخی کردار پر روشنی ڈالی ،جنہیں عام طور سے تاریخی کتابوں میں نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حقیقت میں یہ خواتین ہمارے ملک کی تاریخ کی گم نام ہیروئنز ہیں۔عالیہ یونیورسٹی کولکتہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر طحینہ اسلام نے وومنس کالج علی گڑھ کی شریک بانی وحید جہاں بیگم کی تعلیمی جدو جہد  پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنی تحقیقی گفتگو میں اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ وحید جہاں بیگم نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کتنی قربانیاں دیں اور مسلم خواتین کو باعزت و محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کرنے میں کیا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی خدمات آج کے دور میں بھی ایک مثالی نمونہ ہے۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم خواتین کو دہرا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف انہیں سماج کی عدم توجہی کا سامنا ہے تو دوسری طرف پدرشاہی نظام کے بندھن ہیں۔ انہوں نے سماج کے تعلیم یافتہ طبقے اور نئی نسل سے اپیل کی کہ وہ اپنے گھروں سے بیداری کی شروعات کریں، کیونکہ زبانی تاریخ اور اپنے ارد گرد گمنام خواتین کی زندگیوں کے ذریعے وہ مطالعے کی ایک نئی راہ کھول سکتے ہیں۔کانفرنس کا افتتاح جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین کی اسسٹنٹ سکریٹری رابعہ بصری نے کیا ۔اپنے خطاب میں انہوں نے بھارتی مسلم خواتین کی اکثر نظرانداز کی جانے والی خدمات کو تسلیم کرنے کی ضرورت اور اس ضمن میں جماعت اسلامی ہند کے اس عزم کو اجاگر کیا کہ ان خواتین کی آوازوں کو زندہ کیا جائے گا۔رابعہ بصری نے کہا کہ آج کے دور میں جب تاریخ کو مٹانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ایسے میں یہ کانفرنس نہ صرف علمی لحاظ سے اہم ثابت ہوئی ہے بلکہ اس میں ایک اخلاقی ذمہ داری کا احساس بھی شامل ہے۔ مسلم خواتین کی وراثت کو تسلیم کرنا، ان کو دستاویزی شکل دینا اور یاد رکھنا قومی تعمیر میں ان کے کردار کو اجاگر کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ موجودہ این سی ای آر ٹی نصاب میں مغلوں کی مبینہ بربریت، مندر توڑنے جیسے بیانیے کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور مسلم حکمرانوں کو حملہ آور کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی متعصبانہ داستانیں صدیوں کی پیچیدہ طرز حکمرانی کو صرف مذہبی عدم برداشت اور تصادم تک محدود کر کے بھارت کے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان لیے سنگین خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ کانفرنس میں  ملک بھر سے علما، اساتذہ، طلبہ اور سماجی کارکنان نے شرکت کی۔نیشنل ایگزیکیٹو کمیٹی کی رکن میناز بانو نے پروگرام کی میزبانی کی اور مسلم خواتین کے ہندوستانی سماجی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ ۔جماعت اسلامی ہند کی اسسٹنٹ سکریٹری سمیہ مریم نے کانفرنس کی نظامت۔