مسلم خواتین کو خلع کا مطلق حق حاصل، شوہر کی رضا مندی ضروری نہیں:تلنگانہ ہائی کورٹ

حیدرآباد،25 جون :

تلنگانہ ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں واضح کیا ہے کہ مسلم خواتین کو خلع لینے کا مطلق اور غیر مشروط حق حاصل ہے اور اس کے لیے شوہر کی منظوری یا رضا مندی لازمی نہیں ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اسلامی قانون کے مطابق خلع ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے مسلم عورت نکاح کوختم کر سکتی ہے، اور اس عمل میں شوہر کی رضا مندی کی ضرورت نہیں۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس موسومی بھٹاچاریہ اور جسٹس بی آر مادھو سدھن راؤ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے [محمد عارف علی بمقابلہ اسماء افسر النساء] کیس کی سماعت کے دوران یہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے مزید کہا کہ خلع کی تصدیق کے لیے مفتی یا دارالقضاء سے حاصل کردہ "خلع نامہ” ضروری نہیں ہے کیونکہ مفتی کی رائے صرف مشاورتی حیثیت رکھتی ہے۔عدالت نے وضاحت کی کہ جب خلع کا مطالبہ نجی دائرہ میں کیا جاتا ہے تو وہ اسی وقت مؤثر ہو جاتا ہے، بشرطیکہ عدالت میں اس پر کوئی تنازع نہ ہو۔ تاہم اگر معاملہ عدالت میں پہنچے، تو عدالت صرف نکاح کے خاتمے پر قانونی مہر ثبت کرتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ فیملی کورٹ کا کردار صرف اس بات کی جانچ کرنا ہوتا ہے کہ خلع کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں، اور کیا صلح کی سنجیدہ کوشش کی گئی یا بیوی کی طرف سے مہر کی واپسی کی پیشکش کی گئی ہے یا نہیں۔ اس عمل میں تفصیلی شہادت یا طویل سماعت کی ضرورت نہیں۔

عدالت نے قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیات 228 اور 229 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام بیوی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ شادی کو ختم کر سکے، اور شوہر کی منظوری اس عمل کےلیے شرط نہیں ہے۔

یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں سنایا گیا جس میں ایک شوہر نے فیملی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس نے اس کی اُس درخواست کو مسترد کر دیاتھا جس میں اُس نے خلع نامہ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا تھا، جو اس کی بیوی نے ایک غیر سرکاری تنظیم "صدائے حق شرعی کونسل کے ذریعہ حاصل کیا تھا۔ بیوی نے شوہر کی خلع سے انکار کے بعد مذکورہ کونسل سے رجوع کیا تھا۔عدالت نے قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیات 228 اور 229 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام بیوی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ شادی کو ختم کر سکے، اور شوہر کی منظوری اس عمل کےلیے شرط نہیں ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسلامی قانون میں کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہے جو شوہر کی طرف سے خلع کے مطالبے کی مخالفت کی صورت میں اپنایا جائے۔ خلع کو عدالت نے ایک ایسا نان-کانفرنٹیشنل (غیر متنازعہ) طلاق قرار دیا جو فریقین کی باہمی کوشش کے بعد،شادی برقرار نہ رکھنے کی صورت میں اختیارکی جاتی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ اس مقدمے میں بیوی نے متعدد بار خلع کا مطالبہ کیا اور مفاہمت کی کوششیں ناکام ہوئیں، جس کے بعد خلع نامہ جاری کیاگیا۔ ایسے حالات میں شوہر کی طرف سے اس خلع نامہ کے خلاف اپیل کی کوئی قانونی بنیاد نہیں بنتی۔اس مقدمے میں شوہر کی نمائندگی سینئر وکیل جے پربھاکر اور ایڈوکیٹ محمد شفیع الدین نے کی، جبکہ بیوی کی نمائندگی ایڈوکیٹس مبشر حسین انصاری اور امتیاز غلام محبوب فیض نے کی۔