مسلم اکثریت سیٹ مصطفیٰ آباد میں مسلم رائے دہندگان کی تقسیم کا بی جے پی کو فائدہ ہوا
تاریخ رقم کرتے ہوئے بی جے پی کے موہن سنگھ بشٹ نے جیت حاصل کی اور عام آدمی پارٹی کے عدیل احمد کو کانگریس اور اے آئی ایم نے زبر دست نقصان پہنچایا
![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/Delhi-Mustafabad.jpg)
نئی دہلی ،08 فروری :۔
دہلی میں اسمبلی انتخابات 2025 کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے اور اس بار حیران کن طریقے سے نتائج نے تاریخ رقم کئے ہیں ۔ 27 سال بعد بی جے پی نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے مکمل اکثریت سے حکومت سازی میں کامیاب ہو گئی ہے۔وہیں گزشتہ دس برسوں سے دہلی میں حکومت کرنے والی عام آدمی پارٹی بری طرح شکست سے دو چار ہوئی ہے اس کے قد آور اور سینر رہنما بھی اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ خود اروند کیجریوال اور منیش سسودیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اسی طرح اس بار کے اسمبلی انتخابات میں مسلم اکثریت سیٹ پر بھی بی جے پی نے کامیابی حاصل کر کے سب کو چونکا دیا ہے ۔جمنا پار واقع مصطفیٰ آباد اور اوکھلا کی مسلم اکثریتی سیٹ پر سب کی نظر تھی کیونکہ ان دونوں سیٹوں پر ایم آئی ایم آئی ایم نے اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے اور آخری وقت میں زبر دست مسلم ووٹوں کا بکھراؤ ہوا ۔اوکھلا میں ایم آئی ایم نے سی اے اے تحریک کے دوران گرفتار ہوئے شفاالرحمان کو اتارا تھا اور وہیں مصطفیٰ آباد میں دہلی فسادات کے ملزم طاہر حسین کو ٹکٹ دیا تھا ۔جہاں اوکھلا میں امانت اللہ خان اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوئے وہیں مصطفیٰ آباد میں مسلم ووٹوں کے انتشار کا بی جے پی کو فائدہ ہوا اور موہن سنگھ بشٹ نے تاریخ رقم کی ۔ موہن سنگھ نے اس سیٹ پرقریبی حریف عآپ امیدوار عدیل احمد خان کو 17578 ووٹوں سے ہرایا۔
خیال رہے کہ مصطفیٰ آباد سیٹ پر مسلمانوں کی آبادی تقریباً 40 فیصد ہے اور ہندوؤں کی 60 فیصد۔ ہندوؤں میں بھی الگ الگ طبقات ہیں جن کا رجحان الگ الگ پارٹیوں کی طرف رہتا ہے۔ خاص طور سے ٹھاکر اور دلت ووٹرس کی تعداد اس سیٹ پر اچھی خاصی ہے۔ ٹھاکر یہاں تقریباً 12 فیصد اور دلت تقریباً 10 فیصد ہیں۔ اس اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر بی جے پی امیدوار کی کامیابی حیران کرنے والی ضرور ہے، لیکن عام آدمی پارٹی کا کھیل بگاڑا کانگریس اور اسدالدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم نے۔
دراصل اے آئی ایم آئی ایم امیدوار محمد طاہر حسین کو 33474 اور کانگریس امیدوار علی مہدی کو 11763 ووٹ ملے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کےامیدوار کو طاہر حسین نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا، کیونکہ مسلم ووٹرس طاہر کے تئیں ہمدردی دکھاتے ہوئے کافی حد تک پولرائز ہو گئے۔ مجموعی طور پر مسلم امیدوار اے آئی ایم آئی ایم کے محمد طاہر حسین اور کانگریس کے امیدوار علی مہدی میں رائے دہندگان تقسیم ہو گئے۔
امیدوار کے سلیکشن میں بی جے پی نے کمال ہشیار ی کا مظاہرہ کیا ۔ اس نے بھی کسی حد تک بی جے پی کی جیت میں کردار ادا کیا۔مصطفیٰ آباد سیٹ سے جگدیش پردھان بی جے پی کے مضبوط امیدوار تھے، لیکن آخر وقت میں بی جے پی نے یہاں سے موہن سنگھ بشٹ کو میدان میں اتارا۔ بشٹ کراول نگر سے رکن اسمبلی تھے، جن کی سیٹ ہندو لیڈر کپل مشرا کو دے دی گئی۔ بشٹ کا نیٹورک مصطفیٰ آباد سیٹ پر مضبوط رہا ہے۔ بشٹ کی شبیہ زمینی لیڈر کی ہے، جس کا فائدہ انتخاب میں بی جے پی کو ملا۔
مصطفیٰ آباد سیٹ سے عام آدمی پارٹی نے عدیل احمد خان کو امیدوار بنایا تھا۔ عدیل سابق رکن اسمبلی حسن احمد کے بیٹے ہیں۔ آخری وقت میں اویسی نے یہاں سے طاہر حسین کو اتار دیا۔ طاہر دہلی فسادات کے ملزم ہیں۔ پرچہ داخل کرنے کے بعد طاہر انتخابی تشہیر کے لیے اجازت لینے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ سے اجازت ملی تو وہ میدان میں اتر گئے۔ طاہر کے میدان میں اترنے سے پورا الیکشن ہندو مقابلہ مسلم ہو گیا، یعنی مسلم ووٹ بڑی تعداد میں طاہر کی طرف چلا گیا۔
اس کے علاوہ مصطفیٰ آباد سیٹ سے 5 مسلم امیدوار کا بھی میدان میں اتارا جانا تھا ،اس کی وجہ سے بھی مسلم ووٹ تقسیم ہوئے ہیں ۔ جس کا خمیازہ سیدھے طور پر عام آدمی پارٹی کو اٹھانا پڑا۔ کانگریس کے علی مہدی بھلے چوتھے نمبر پر رہے، لیکن وہ بھی مسلم ووٹوں کا بڑا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ دوسری طرف ایک کو چھوڑ دیا جائے تو کسی بھی ہندو امیدوار کو ایک ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔