مسلم اقلیتی طبقے کو کنارے لگانا اب فسطائی قوتوں کی مستقل پالیسی ملک کیلئے خطرے کی گھنٹی:اپوروانند
طالب علم رہنما عمر خالد کی جیل سے رہائی کےلئے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کی جانب سےاحتجاجی اجلاس، اراکین پارلیمنٹ،سماجی اوررفاہی تنظیموں کے سر براہان کی شرکت
نئی دہلی ،15جون :۔
جے این یو کے طلبہ رہنما عمر خالد کی گرفتاری اور جیل میں ان کے قید و بند کے آج 1000 سے زیادہ دن ہو گئے ہیں ۔ایک ہونہار طالب علم رہنما کے اتنے لمبے عرصے تک جیل میں قید رہنے پر ملک کے دانشور اور سنجیدہ طبقہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور عمر خالد کی رہائی کے لئے مہم کا آغاز بھی کیا ہے۔اسی سلسلے میں بدھ 14 جون کو دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر می سماجی رہنماوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ٹرائل کے دوران جیل میں عمر خالد کے ایک ہزار سے زیادہ دن گزارنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ سماجی رہنماوں نے حکومت کے غیر آئینی اور غیر جمہوری طرز عمل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی گرفتاری پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کی جانب سے منعقدہ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی نے کہا کہ جس پارلیمنٹ نے ٹاڈا اور پوٹا جیسے غیر انسانی قوانین کو ختم کیا اسی طرح یو اے پی اے جیساقانون بھی مستقبل قریب میں اپنے انجام کو پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی غیر آئینی پالیسیوں پر زبان کھولنا اب دہشت گردی کے مترادف ہو گیا ہے اور صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو دہشت گردی جیسے قوانین کی آڑ میں جیلوں میں ٹھونسا جا رہاہے جو کسی بھی جمہوری ملک کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔
اس سے پہلے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ مسلم اقلیتی طبقے کو کنارے لگانا اب فسطائی قوتوں کی مستقل پالیسی بنتی جا رہی ہے جو ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح ٹرائل کے دوران اقیلیتی طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوان بشمول عمر خالد، ایک ہزار سے زیادہ دن جیل میں ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کا تحفظ مہذب سماج کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں بھارت کا اکثریتی طبقہ ناکام ہو رہا ہے۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں معروف سماجی کارکن محترمہ کویتا شریواستو نے کہا کہ ہزاروں ایسے افراد جیلوں میں بند ہیں جنکی ابھی تک چارج شیٹ بھی داخل ہوئی ہے اور عدالتوں کی سردمہری کے باعث وہ لوگ کئی سال سے جیلوں میں بند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی فہرست جاری ہونی چاہئے جس سے سماج کو پتا چلے کہ کتنے افراد بغیر مقدمے کے فیصلے کے کئی سالوں سے جیلوں میں بند ہیں اور جنکا ٹرائل چل رہا ہے۔
اس جلسے سے خطاب کرے ہوئے دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کہا کہ حکومت اس کوشش میں ہے کہ اقلیتی کمیشن کی رپورٹوں کو عدالتوں میں غیر موثر کیسے بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی فسادات کے دوران منظم طور پر مسلم املاک کو نشانہ بنایا گیا اور مسلمانوں پر ہی فرد جرم بھی عاید کی گئی جو انتہائی تشویشناک امر ہے۔
اپنے صدارتی خطاب میں ویلفیئر پارٹی کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا ظلم کی حکومت کبھی پائیدار نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ڈری ہوئی ہے اسی لئے ہر مخالف آواز کو دبانا چاہتی ہے اور اسی لئے حکومت کے خلاف آوازا اٹھانے والوں پر دہشت گردانہ قوانین کے تحت معاملات درج کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظالم حکومت جلد ہی اپنے انجام کو پہنچے گی۔ انہوں نے ظلم کے خلاف احتجاج کا پرچم بلند رکھنے کی بھی تلقین کی۔
جلسے سے جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری محمد احمد اور فریٹرنیٹی مومنٹ کے صدر محمد آصف نے بھی خطاب کیا۔ اس جلسے میں خواتین کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسے کے کنوینر معروف سماجی کارکن ندیم خان تھے۔