مسلمانوں کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں میں غیر مسلم طلبہ کی اکثریت
دہلی کے ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (سی ایس آر) کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف
نئی دہلی ،13فروری :۔
علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے اقلیتی کردار پر معاملہ ابھی کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر مسلمان ہیں ۔صرف علی گڑھ ہی نہیں بلکہ ملک میں مسلمانوں کے ذریعہ چلانے جانے والے تمام تعلیمی اداروں میں صرف مسلم طلبہ کے تعلیم حاصل کرنے کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں ۔دریں اثنا ایک تحقیقاتی رپورٹ نے ان تمام دعوؤں کو غلط ثابت کرتے ہوئے حیران کن انکشاف کیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں52 فیصد غیر مسلم طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رپورٹ تیار کرنے والوں کے مطابق اس رپورٹ نے مسلم اداروں کے حوالے سے بے بنیاد الزامات کو غلط ثابت کردیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (سی ایس آر) انڈیا نے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد مسلم طلبہ کے مقابلے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیر مسلم طلبہ کی تعداد52.7 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف 42.1 فیصد ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب برصغیر کے معروف تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ اور دائیں بازو کی تنظیمیں دیگر مسلم اداروں کے اقلیتی کردار کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔
سی ایس آر انڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان کے مطابق اس رپورٹ نے اس غلط تصور کو پاش پاش کردیا ہے کہ مسلم کالجوں میں صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ”میں اس رپورٹ کو ‘متھ بسٹر’ کہتا ہوں کیونکہ ملک میں وسیع پیمانے پر یہ پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں تو صرف مسلم بچے اور بچیاں ہی پڑھتی ہیں۔ جبکہ اعدادوشمار سے ظاہرہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے مقابلے غیر مسلم لڑکیوں بھی تعداد زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ رپورٹ حکومت کے مختلف اداروں ا ور تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ ‘اطلاعات کا حق’ (آر ٹی آئی) کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 1113 یونیورسٹیز میں 23 مسلم اقلیتی ہیں، جہاں ہندو طلبہ کی تعداد 52.7 فیصد اور مسلم طلبہ کی تعداد صرف 42.1 فیصد ہے۔ اسی طرح 1115 مسلم اقلیتی کالجوں میں غیر مسلم طلبہ اکثریت میں ہیں۔ ان کالجوں میں ہندو طلبہ کی تعداد 55.1 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف42.1 فیصد ہے۔ دیگر اقلیتی گروپ کے 2.8 فیصد طلبہ بھی مسلم تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ تعلیمی سال 2021-22 میں مسلمانو ں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکوں کی تعداد 47.18 فیصد اور لڑکیوں کی تعداد 52.8 فیصد تھی۔
ڈاکٹر محمد رضوان کا کہنا تھا کہ بعض مسلم تعلیمی اداروں میں پروفیشنل کورسیز میں توغیر مسلم طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد 65 فیصد سے زیادہ ہے اور مسلم طلبہ صرف 35 فیصد ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی میں بھی پروفیشنل کورسیز میں غیر مسلم طلبہ کی تقریباً یہی صورت حال ہے۔
غیر مسلم طلبہ کی مسلم اداروں میں زیادہ تعدداد ہونے کے سوال پر ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ دراصل ہندو طلبہ اور ان کے والدین کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ انہیں جب کوئی اچھا، گھر کے نزدیک اور کم فیس والا کالج ملتا ہے تو وہ ہندو یا مسلمان کی نگاہ سے اسے نہیں دیکھتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ کی تیاری کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ غیر مسلم لڑکیوں کے والدین اپنی بچیوں کو مسلم تعلیمی اداروں میں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "مسلم تعلیمی اداروں میں تکنیکی کورسز میں 55 سے 60 فیصد غیر مسلم طلبہ ہیں۔ صرف جنرل کورسز میں مسلم طلبہ کی تعداد 60 فیصد ہے جب کہ ٹیکنیکل کورسز میں غیر مسلم طلبہ کی اکثریت ہے۔