مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز فلم ’ہم دو ،ہمارے 12‘ کی ریلیز پر پابندی لگانے کا مطالبہ
مسلم مجلس مشاورت کے صدرنے سنسر بورڈ کو لکھا خط،جھوٹا پروپیگنڈہ اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا این سی پی کے رہنما جتیندر آواڑ نے بھی پابندی کا مطالبہ کیا
نئی دہلی ،30مئی :۔
مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی آمد کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہر سطح پر منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی ہر سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منفی ،جھوٹی اور بے سر پیر کی خبروں کی خوب تشہیر کی جا رہی ہے۔فلم انڈسٹری بھی ایک زمانے میں سیکولر مانا جاتا تھا حالانکہ وہاں بھی پروپیگنڈہ پہلے بھی جاری رہا ہے مگر اب کھل کر فلم انڈسٹری ن مسلمانوں کے خلاف مفی پروپیگنڈہ فلموں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔بلکہ اسے باقاعدہ فلموں کی کامیابی اور نا کامی کا معیار طے کرنے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پروپیگنڈہ فلم دی کشمیر فائلس اور دی کیرالہ اسٹوری کی معمولی کامیابی کے بعد مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ فلموں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔تازہ ترین فلم ہم دو ،ہمارے بارہ ہے ۔یہ بھی ایک سی گریڈ فلم ہے لیکن تشہیر اور ٹریلر اس طریقے سے چلایا جا رہا ہے کہ سماج میں اس کا منفی پیغام جائے۔اس فلم کے ٹریلر ریلیز کے بعد مسلمانوں میں بھی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈووکیٹ نے ’ہم دو ہمارے 12‘ نام کی فلم کے ٹریلر پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک نہایت زہریلی اور شر انگیز فلم ہے جو مسلمانوں کو بدنام کرنے اور نفرت پھیلانے کے ارادے سے بنائی گئی ہے۔
صدر مشاورت نے فلم سینسر بورڈ آف انڈیا کے نام اس سلسلے میں خط لکھا ہے جس میں فلم کی ریلیز پر فی الفور پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ 7 جون کو ریلیز کی جانے والی یہ فلم اسلام، مسلمان، مسلم خواتین اور ہندوستانی مسلم سماج کو بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ ایسی فلم کے خلاف ایکشن لینا ضروری ہے تاکہ اس فتنے کی بر وقت سرکوبی کی جا سکے۔
صدر مشاورت نے ملک کے انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی ہے کہ اس فلم کے پروڈیوسر کو ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت ہر گز نہ دیں۔ سماج کے امن کو تباہ کر کے پیسہ کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی تو یہ لعنت وبا کی صورت اختیار کر لے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ نفرت کی تجارت ملک کو تباہ کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے۔
دریں اثنا این سی پی کے شرد پوار دھڑے کے ایم ایل اے جتیندر آواڑ نے فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جتیندر اواڑ نے کل رات ایک پریس کانفرنس کہا کہ یہ فلم ایک مخصوص معاشرے کو بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔جتیندر اواڑ نے کہا کہ جو بھی شخص مجھے 10 بچے کسی مسلمان کے گھر دکھائے گا میں اسے 11 لاکھ روپے کا انعام دوں گا۔ بنیادی طور پر اب کسی مسلمان کے 10 یا اس سے زیادہ بچے نہیں ہیں۔ جب ایسی تصویر کہیں نہیں تو لوگوں میں غلط فہمی کیوں؟ یہ کسی مذہبی کتاب یا مذہبی کتاب میں نہیں لکھا ہے۔ ایسا کچھ بھی ہندو، مسلم، سکھ یا بدھ مذہب کی مذہبی کتابوں میں کہیں نہیں لکھا۔ کتنے بچوں کو جنم دینا چاہیے یہ اس میاں بیوی کا سوال ہے۔خدا جانے سنسر بورڈ کیا کر رہا ہے جبکہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے، کس کے ماتحت کام کر رہا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں سنسر کو کچھ ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ میں نے اس فلم پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے”۔