مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے والے جج پر حکومت  مہربان

تکنیکی خامیوں کا حوالہ دے کرتحقیقات روکے جانے پر سپریم کورٹ کے وکیل  کپل سبل اور کانگریس سکریٹری نے  حکومت کے رویہ پرسوال اٹھائے

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،12 جون :۔

جسٹس شیکھر یادو (جج، الہ آباد ہائی کورٹ) نے گزشتہ سال 8 دسمبر کو وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف متنازعہ  اور انتہائی نفرت انگیز بیان دیا تھا۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان کے خلاف اندرونی تحقیقات شروع کرنے کی پہل کی تھی۔مگر اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک اس تحقیقات پر کوئی کارروائی اور پیش رفت عمل میں نہیں آ سکی ہے ۔ در اصل اس سلسلے میں حکومت کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا ۔حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے نفرت انگیز بیان دینے والے جج کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے ۔حکومت کے رویہ کی وجہ سے اب سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ حکومت ایک نفرتی جج کو جو مسلمانوں کے خلاف ایسے خیالات رکھتا ہے بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور تحقیقات کا حکم بھی دیا تاہم راجیہ سبھا سکریٹریٹ نے اس معاملے میں واضح کیا ہے کہ کسی جج کے طرز عمل کی تحقیقات شروع کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ اور صدر کے پاس ہے، سپریم کورٹ کو نہیں۔اس معاملے میں راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے  الزام لگایا کہ گزشتہ سال مکمل طور پر فرقہ وارانہ تبصرہ کرنے کے باوجود مرکزی حکومت الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑنے جج یادو کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کے نوٹس پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟

کانگریس کے قومی سکریٹری شاہنواز عالم نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کی طرف سے فرقہ وارانہ تبصرہ کرنے والے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر یادو کے خلاف سپریم کورٹ کی اندرون خانہ انکوائری پر پابندی کی مذمت کی ہے۔

شاہنواز عالم نے کہا ہے کہ ایسے معاملات میں کارروائی کرنے کا حق راجیہ سبھا کے چیئرمین، یعنی نائب صدر، پارلیمنٹ اور صدر کے پاس ہے۔غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 8 دسمبر کو وی ایچ پی کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے جسٹس شیکھر یادو نے کہا تھا کہ ہندوستان صرف ‘اکثریت’ یعنی ہندو برادری کی مرضی کے مطابق چلے گا۔

انہوں نے کچھ مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ‘ کٹھ ملا’ جیسے متنازعہ الفاظ کا استعمال کیا تھا اور چار شادیوں اور تین طلاق جیسے طریقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کے لیے ‘مہلک’ ہیں۔

سپریم کورٹ کے معروف وکیل کپل سبل

کپل سبل نے کہا کہ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے اور جب آئینی عہدہ پر بیٹھا کوئی شخص، جو درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے، چھ ماہ میں آئینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا، تو سوالات اٹھنے لازمی ہیں۔انہوں نے کہا، "13 دسمبر 2024 کو، ہم نے راجیہ سبھا کے چیئرمین کو مواخذے کی تحریک کا نوٹس دیا تھا۔ اس پر 55 اراکین پارلیمنٹ کے دستخط تھے۔ چھ ماہ گزر چکے ہیں، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔”کپل سبل نے کہا، "میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں، کیا ان کی ذمہ داری صرف اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ دستخط موجود ہیں یا نہیں؟ کیا اس میں چھ ماہ لگنا چاہیے؟”

 

اس متنازع تقریر کے بعد راجیہ سبھا کے 55 ممبران پارلیمنٹ نے جسٹس یادو کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی تھی جب کہ 13 سینئر وکلاء نے چیف جسٹس آف انڈیا سے ان کے خلاف سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا تھا۔راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھر نے فروری میں کہا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے۔

راجیہ سبھا کے چیئرمین دھنکھڑ نے کہا تھا، "معزز اراکین، 13 دسمبر، 2024 کو، مجھے ایک قرارداد کا ایک غیر تاریخ شدہ نوٹس ملا ہے، جس پر راجیہ سبھا کے 55 اراکین نے دستخط کیے ہیں۔ یہ قرارداد مطالبہ کرتی ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے جو آئین کے آرٹیکل 124 (4) کے تحت ہے، راجیہ سبھا کے آئین کے مطابق صرف چیرمین  کو اس موضوع پر فیصلہ لینے کا حق ہے، اور بعد میں یہ معاملہ پارلیمنٹ اور معزز صدر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

اس کے بعد مارچ میں راجیہ سبھا کی طرف سے بھیجے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ صرف راجیہ سبھا کے چیئرمین کو ہی اس طرح کی کارروائی شروع کرنے کا آئینی حق حاصل ہے اور بالآخر یہ پارلیمنٹ اور صدر کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ یہ سارا معاملہ "تعصب” کا شکار ہے کیونکہ ایک طرف راجیہ سبھا کے سکریٹری جنرل نے چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک خط لکھا کہ یادو کے خلاف اندرونی انکوائری کو آگے نہ بڑھایا جائے کیونکہ ان کے خلاف ایک عرضی ایوان بالا میں زیر التوا ہے، جب کہ جسٹس یشونت ورما کے معاملے میں انہوں نے ایسا نہیں کیا۔کپل سبل نے کہا کہ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے اور جب آئینی عہدہ پر بیٹھا کوئی شخص، جو درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے، چھ ماہ میں آئینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا، تو سوالات اٹھنے لازمی ہیں۔انہوں نے کہا، "13 دسمبر 2024 کو، ہم نے راجیہ سبھا کے چیئرمین کو مواخذے کی تحریک کا نوٹس دیا تھا۔ اس پر 55 اراکین پارلیمنٹ کے دستخط تھے۔ چھ ماہ گزر چکے ہیں، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔”کپل سبل نے کہا، "میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں، کیا ان کی ذمہ داری صرف اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ دستخط موجود ہیں یا نہیں؟ کیا اس میں چھ ماہ لگنا چاہیے؟”

انہوں نے کہا کہ ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت جسٹس شیکھر یادو کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے جنہوں نے مکمل طور پر فرقہ وارانہ ریمارک کیا تھا۔

کانگریس کے قومی سکریٹری شاہنواز عالم نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ انصاف کو روکنے کے لیے کسی تکنیکی رکاوٹ کا غلط استعمال نہیں کیا جا سکتا اور انصاف کا تقاضا ہے کہ جسٹس شیکھر یادو کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹایا جائے اور عدلیہ کی ساکھ بحال کی جائے۔ لیکن اس معاملے میں راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ اس تکنیکی دفعات کا غلط استعمال کرکے فرقہ پرست جج کو بچانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اندرون خانہ جانچ کر کے رپورٹ کو کارروائی کے لیے راجیہ سبھا کو بھیج دیتی جس پر دھنکھر جی کو کارروائی کرنی پڑتی۔ اسی لیے ایک سازش کے تحت خود سپریم کورٹ کو تحقیقات سے روکا گیا ہے تاکہ سنگھی ذہنیت والے جج کے خلاف کارروائی نہ کرنی پڑے۔

انہوں نے کہا کہ صدر کو بھی اس معاملے میں کارروائی کرنے کا حق ہے لیکن ان کی خاموشی سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شیکھر یادو کو بچانے کے لیے ان پر دباؤ ہے۔ اس طرح شیکھر یادو ایک مثال بن گئے ہیں جن کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو وہ عدلیہ کی شبیہ کو ہمیشہ کے لیے داغدار کر دیں گے۔

شاہنواز عالم نے کہا کہ الیکشن کمیشن، سی بی آئی، ای ڈی، یو جی سی جیسے اداروں پر مکمل کنٹرول کرنے کے بعد مودی حکومت آر ایس ایس کے کارکنوں کے ہاتھوں عدلیہ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ جس میں مودی حکومت کی کامیابی کا مطلب جمہوریت کا خاتمہ ہوگا۔ اس لیے سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو شیکھر یادو کو عہدے سے ہٹانے کی مہم چلانی چاہیے۔

شاہنواز عالم نے کہا کہ ایسی صورتحال میں…اس صورتحال میں پورا ملک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بی آر گوائی کی طرف دیکھ رہا ہے کہ آیا وہ حکومت کی اس تکنیکی رکاوٹ کو استعمال کرتے ہوئے فرقہ پرست جج کو اپنے عہدے پر برقرار رہنے دیں گے یا پھر آئینی اقدار کے تحفظ کے لیے حکومت کے اس رویہ کی مخالفت کریں گے۔