مسلمانوں کے  بائیکاٹ کی اپیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ،سپریم کورٹ میں درخواست  

نئی دہلی ،08اگست :۔

ملک میں گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقریروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستوں سے سخت کارروائی کا حکم دیا ہے ۔مگر ایسے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہریانہ کے نوح گروگرام میں گزشتہ ہفتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے  خلاف نفرت آمیز ریلیوں اور مسلمانوں کاسماجی اور معاشی بائیکاٹ کے کئی معاملے سامنے آئے ہیں۔

 

مختلف ہندوتوا گروپوں کی طرف سے باقاعدہ ریلی نکال کر کھلے عام مسلمانوں کے بائیکات کی اپیل کی جا رہی ہے جس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔

سینئر وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کے سامنے اس معاملے کا ذکر کیا اور اس سنگین معاملے کی فوری سماعت کا مطالبہ کیا۔

سبل نے کہا، "گروگرام میں ایک بہت ہی سنگین واقعہ پیش آیا ہے، جہاں پولیس والوں کی موجودگی میں یہ اپیل کی جا رہی ہے کہ   اگر آپ ان لوگوں کو دکانوں پر  رکھتے ہیں، تو آپ سب ‘غدار’ ہوں گے… ہم نے ایک فوری درخواست دائر کی ہے۔”

یہ درخواست شاہین عبداللہ نے عبوری طور پر دائر کی ہے۔ گزشتہ ہفتے، عدالت نے ان کی درخواست پر ایک حکم جاری کیا تھا، جس میں دہلی، یوپی اور ہریانہ کے پولیس حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ نوح فرقہ وارانہ تصادم کے تناظر میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی طرف سے منعقد کی گئی ریلیوں میں نفرت انگیز تقریر کی اجازت نہ دی جائے۔

لائیو لا کے مطابق درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مختلف ریاستوں میں 27 سے زائد ریلیاں نکالی گئی ہیں، جن میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ پر کھلے عام نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں۔

درخواست میں ایک ویڈیو کا حوالہ دیا گیا جو 02.08.2023 کو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھی جس میں مبینہ طور پر ہریانہ کے حصار میں سمست ہندو سماج نامی تنظیم کا جلوس دکھایا گیا تھا، جس میں رہائشیوں/دکانداروں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ 2 دن کے بعد بھی کسی مسلمان کو ملازمت دیتے رہے تو ان کا دکانوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، درخواست گزار نے الزام لگایا کہ اقلیتی برادری کے خلاف دھمکی آمیز اپیل پولیس افسران کی موجودگی میں کی گئیں۔درخواست میں نفرت انگیز تقاریر کو روکنے میں ناکامی پر ان ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کرنے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

خیال رہے کہ میوات کے نوح میں ہندوتوا تنظیموں کی مذہبی ریلی میں ہتھیاروں کی نمائش اور دوسری برادری کو اکسانے کے بعد تنازعہ بڑھ گیا جس نے تشدد کی شکل اختیار کر لی۔ اس میں نوح اور گروگرام سمیت آس پاس کے علاقے بھی لپیٹ میں آگئے، جس میں مسجد کے نائب امام سمیت 6 افراد کی موت ہوگئی۔