مسلمانوں کی معاشی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ ان میں حقیقی تجارت کا شعور پیدا کیا جائے

جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت الا سلام میں امت کی معاشی صورتحال کی بہتری کے موضوع پرخطبہ جمعہ کے دوران سید ممتاز منسوری کا خطاب

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،21 جولائی :۔

وطن عزیز میں گزشتہ چند برسوں میں بے روزگاری اور ان امپلائنٹ میں اضافہ ہوا ہے جس سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام برادران وطن دو چار ہیں۔تعلیم یافتہ طبقہ بھی پریشان ہے اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ بھی ۔مسلمانوں کی معاشی اور اقتصادی صورت حال میں بہتری پر گفتگو کرتے ہوئے گزشتہ روز جمعہ کے خطبے میں سید ممتاز منسوری نے چند نکات کی طرف رہنمائی کی ۔

سید ممتا ز منسوری نے جماعت اسلامی ہند مرکز دہلی کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت ا لاسلام میں خطبہ جمعہ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشی بہتری اور اقتصادی فروغ کے لئے ہم مسلمانوں کے درمیان جو بھی لائحہ عمل ہو اس سلسلے میں جو بھی گفتگو ہو اس کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے روبرو ہمارا مقصد حیات واضح ہو ۔ مسلمان اس کا اپنا جاب ڈسکرپشن کیا ہے،رب نے ہماری تخلیق کس مقصد کے تحت کی ہے یہ واضح نہیں ہوگا تو ہماری کوئی تدبیر بہتر نہیں  ہوگی۔ہمارے اور آپ کے اس دنیا میں ترقی کے لئے وہ اصول نہیں ہیں جو مغربی اقوام اور دوسروں کے لئے  ہیں۔ہمارے لئے اس دنیا میں ترقی کے اصول وہ ہیں جو قرآن نے ہمیں بتایا ہے،ان اصول پر عمل پیرا ہو کر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے اس دوران  سامعین خطبہ جمعہ کے سامنے چند نکات کی نشاندہی کی اور کہا کہ مقامی اعتبار سے مسلمانوں کی تنگ حالی اور افلاس اور غربت کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اندر تجارت کا رجحان پیدا کیا جائے،تجارت کا رجحان محض چند کروڑ کے کاروبار پر نہیں ہے،تجارت کا سینس صحیح معنوں میں تجارت کو اسلامی نہج پر سمجھیں اور بغیر کسی قید اور حد کے آگے بڑھتے جائیں۔ لیکن اس بڑھوتری میں دنیا کے حصول میں آخرت اثر انداز نہ ہو ،یہ اہم ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ ایک  اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے درمیان سائنس اور ٹکنا  لوجی کے سینٹر مقامی اعتبار سے قائم کئے جائیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ہمارے بڑے تجا ر چھوٹے تاجروں کاہاتھ تھامیں اور ان کی رہنمائی کریں،اور خاندان کے اندر جو لوگ صلاحیت کے باوجود معاشی تعطل کا شکار ہو چکے ہیں ان کا ہاتھ پکڑا جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے ۔مقامی طور پر اس بات کی کوشش کی جائے کہ چھوٹے چھوٹے ذیلی اور مرکزی ادارے قائم ہوں تاکہ مسلمان اپنی تجارتی ضروریات کے لئے غیر مسلم بینکوں کی طرف نہ جائیں بلکہ کم تبادلے کے ساتھ کم جمع پونجی کے ساتھ اپنی تجارت کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی کوشش کریں کہ چھوٹی چھوٹی تجارت کرنے والوں کو خود انحصاری پر توجہ دیں،اور چھوٹے تاجر اس بات کا خیال رکھیں کہ امانت داری اور دیانت داری ان کا شیوہ ہو۔

انہوں نے مقامی سطح پر مسلمانوں کے کرنے کے کام کے علاوہ ملکی اور عالمی سطح پر کچھ اقدامات کی بھی نشاندہی کہ جس سے پوری امت مسلمہ میں اقتصادی اور معاشی بہتری لائی جا سکے ۔ انہوں نے ملکی سطح پر انجام دینے والے کاموں  کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ   پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر صحیح معنوں میں تجارت کا شعور پیدا کیا جائے اور مسلمان شعوری بزنس کرنے والے بن جائیں ،ان کی تجارت کو رجسٹر کیا جائے اور ملک میں ان کے پرفارمنس اور کار کردگی کا جائزہ ہو۔کہ اس کے بغیر یہ انجام نہیں دیا جا سکتا۔ملکی اعتبار سے ایسے بڑے ادارے قائم کئے جائیں جو چھوٹے اداروں کو گائڈ کر سکیں اور ان کو تقویت فراہم کی جا سکے۔

عالمی پیمانے پر بھی کرنے کا کام ہے ،بڑے  اسلامی ممالک ان کی ملٹی نیشن کمپنیاں اس بات کی کوشش کریں کہ ان کی توجہ ایسے پروڈکٹ مارکیٹ میں لانے کی ہو جو مغربی اقوام لے کر آئے ہیں اور مسلم معاشرے میں وہ پروڈکٹ الٹر نیٹ کا درجہ رکھ سکتے ہوں تاکہ امپورٹ کا ریشیو مغربی ممالک سے کم ہو سکے ۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر تجارت کے سلسلے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ تاجر اہم کام کرتا ہے۔پیارے آقا نے فرمایا کہ ایک تیر تین لوگوں کو جنت میں لے جاتا ہے ۔ایک وہ جس نے اسے بنایا، دوسرا وہ جس نے اس کے بنانے میں مدد کی اور تیسرا وہ جس نے اس تیر کو چلایا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں انٹرپرنیوشپ قائم ہے وہیں اسکل سیکھنے کیلئے کسی کے ساتھ جڑ کر کا م کرنا بھی اہم ہے۔ ورنہ کبھی کبھی بغیر اسکل سیٹ کے ہم میدان میں اتر جاتے ہیں اور بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔آپ غور کریں کتنا مناسب ہوگا اگر مسلم ممالک کی کامن کرنسی ہو تو کتنا بہتر ہو سکے گا۔

جب بھی معاشی محاذ پر امت مسلہ کا جائزہ لیا جاتا ہے ہمارے روبروعلامہ اقبال کی نظم طلوع اسلام کا رہنا لازمی ہے۔علامہ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ سچے معنوں میں امت مسلمہ ایک اسٹریٹجک اور لائحہ عمل  کے ساتھ آگے بڑھے تو اس کی صفوں میں کئی کمال عطا ترک  مل سکتے ہیں اور مسلمانوں کی معاشی صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔اخیر میں انہوں نے سامعین کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ باطل کی ہنگامہ خیزی عارضی ہے حق کا ظہور لازمی ہے ،مغربی ممالک کی یہ چمک قریب الختم ہے اور ایک نئی سحر تیار  ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی ۔اس سے قبل انہوں نے مغرب اور اسلام کی تہذیبی اور معاشی کشمکش پر تفصیل سے گفتگو کی اور سامعین کے سامنے مختلف تاریخی واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یوروپ اور مغرب کی اقتصادی لائحہ عمل اور سودی نظام  کا بھی تنقیدی  جائزہ لیا۔