مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے لیے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد ذمہ دار
این سی پی سی آر کے چیئر پرسن پریانک قانون گو کا عجیب و غریب بیان،کہا مدرسوں کو کبھی بند کرنے کیلئے نہیں کہا
نئی دہلی،18 اکتوبر :۔
مدارس اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے سلسلے میں ہمہ وقت مختلف بیانات کو لے کر سرخیوں میں رہنے والے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کےسابق چیئرمین پریانک قانون گو حالیہ دنوں میں مدارس کے فنڈ کو روکنے کیلئے ریاستی حکومتوں کو خط لکھے جانے کے بعد تنقید کا سامنا کر رہے ہیں ۔ دریں اثنا انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی مدارس کو بند کرنے کا نہیں کہا لیکن انہوں نے حکومت کی طرف سے ان اداروں کو دیے جانے والے فنڈز پر پابندی لگانے کی سفارش کی۔ ا نہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ادارے غریب مسلم بچوں کو تعلیم سے محروم کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید آگے بڑھ کر دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کی تعلیم پسماندگی کے لئے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد ذمہ دار ہیں۔
واضح رہے کہ پریانک قانون گو کی مدت کار این سی پی سی آر کے چیئر مین کی حیثیت سے ختم ہو چکی ہے۔انہوں نے اس کی اطلاع گزشتہ 16 اکتوبر کو اپنے ایکس ہینڈل پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دی ہے ۔ انہوں نے اپنی مدت کار میں گزشتہ دس برسوں میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے زیر اہتمام چلائے جانے والے تعلیم اداروں کی مخالفت اور بندکرانے کی مہم کے طور پر کام کیا ۔ان کی تمام سر گرمیاں ملک بھر میں چل رہے اقلیتی اداروں خاص طور پر مدرسوں پر ہی مرکوز رہیں اور مسلم بچوں کو مدرسوں سے نکال کر اسکولوں میں بھیجنے کی وکالت کرتے رہے ۔عہدے سے جاتے جاتے بھی انہوں نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں کو خط لکھ کر مدارس کو دی جانے والی فنڈ بند کرنے کی سفارش کی تھی ۔جس کے بعد وہ تنقیدوں کے نشانے پر ہیں۔
قانون گو نے کہاکہ، ’’ہمارے ملک میں ایک ایسا گروہ ہے جو مسلمانوں کو بااختیار بنانے سے خوفزدہ ہے۔ ان کا خوف اس خدشے سے پیدا ہوتا ہے کہ بااختیار کمیونٹیز جوابدہی اور مساوی حقوق کا مطالبہ کریں گی۔” انہوں نے مزید کہا کہ جامع تعلیمی اصلاحات کی مزاحمت کے پیچھے یہی بنیادی وجہ ہے۔
حکومت کی ذمہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے، پریانک قانون گو نے کہا، "یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ بچوں کو عام تعلیم ملے۔ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی، قانون گو نے کہا کہ ہم اپنے غریب ترین مسلمان بچوں کو عام سکولوں کے بجائے مدرسوں میں جانے پر کیوں مجبور کرتے ہیں۔ یہ پالیسی ان پر غیر ضروری بوجھ ڈالتی ہے۔
این سی پی سی آر کے چئیرمین نے دعویٰ کرتے ہوئے مزید کہا کہ، "1950 میں آئین کے نافذ ہونے کے بعد، مولانا ابوالکلام آزاد نے اتر پردیش میں مدرسوں کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ مسلم بچوں کو اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ کی نمائندگی کافی حد تک کم ہوئی ہے جو اس وقت تقریباً پانچ فیصد ہے۔