مسلمانوں کو الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں کے ساتھ معاہدہ کر کے ووٹ دینا چاہئے
جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس میں مقرر خصوصی عبدالماجد نظامی کا اظہار خیال
نئی دہلی ،27 مئی :۔
لوک سبھا انتخابات 2024 کے لئے ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے،چھ مراحل مکمل ہو چکے ہیں اب آخری اور ساتواں مرحلہ باقی ہے۔اس دوران الیکشن کی تشہیر میں خاص طور پر بی جے پی نے مسلمانوں کو مرکز میں رکھا بلکہ بی جے پی کی پوری انتخابی تشہیر مسلمانوں کے ارد گرد ہی رہی ۔خود وزیر اعظم نے فرقہ وارانہ تقاریر سے مسلم معاشرے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔اس سلسلے میں متعدد تنظیموں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی جانب سے بھی گزشتہ دنوں 25 مئی کو 18 ویں پارلیمانی انتخاب کتنا روایتی اور کتنا انوکھا؟ موضوع پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں متعد صحافیوں نے شرکت کی ۔پروگرام کے مقرر خاص تھے روزنامہ راشٹر یہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عبد الماجد نظامی۔
اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے کانفرنس ہال میں امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی محمد احمد ،اور دیگر ذمہ داران موجود تھے۔پروگرام کے مقرر خاص عبد الماجد نظامی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2024 کا پارلیمانی الیکشن گزشتہ تمام لوک سبھا الیکن سے مختلف اور اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے انتخابات سے لے کر اب تک بی جے پی اور آر ایس ایس نے مسلمانوں کی اہمیت کو گھٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اس سے مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ہوا ، جس کے نتیجے میں سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو اپنے اسٹیج سے دور رکھا ، یہاں تک کہ ٹکٹ کی تقسیم میں بھی آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ 2014 اور2019 کا الیکشن پوری طرح کمیونل تھا۔ موجودہ 2024 کا الیکشن بھی بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے لوک سبھا الیکشن کو پولرائز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس میں انہیں فائدہ بھی ہوا ہے۔
اس موقع پر انہوں ن کہ کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوا تھا ۔2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بہت کم ووٹ تقسیم ہوا۔کانگریس پارٹی سمیت کئی پارٹیوں نے اپنی ناکامی اور شکست کا ذہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا۔عبدالماجد نظامی نے کہا کہ 2024 کے الیکشن میں مسلمان دل کھول کر بلا شرط انڈیا اتحاد کو ووٹ دے رہے ہیں یہاں تک کہ مسلم سیاسی جماعتوں نے ووٹ تقسیم کو روکن کے لئے اہم اقدامات کرت ہوئے اپن امیدواروں کو میدان میں اتارنے سے بھی گریز کیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود مسلمانوں کو اس کا صلہ نہیں ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں ہمارا ووٹ حاصل کرنا ہماری مجبوری سمجھتی ہیں ۔ ہم لوگوں کو سکھ کمیونٹی سے سبق لینا چاہئے کہ 1984 کے سکھ مخلاف فسادات کے بعد سکھوں نے ایک مخصوص جماعت کو وو ٹ دین سے گریز کیا اور جس پارٹی کو بھی ووٹ دیا اپنے شرطوں پر دیا ۔اس لئے میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کو بھی کسی بھی سیاسی پارٹی کو بلا شرط ووٹ نہیں دینا چاہئے۔اس کے لئے مسلم جماعتوں کو ایک تھنک ٹینک بنانا چاہئے اور الیکشن سے قبل ان پارٹیوں سے معاہدہ کر کے ووٹ دینا چاہئے۔
اخیر میں امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نےصدارتی خطاب پیش کیا۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں فرقہ پرست پارٹی نے انتہائی غیر اخلاقی زبان کا استعمال کیا۔اس الیکشن میں پولرائزیشن بھی اپنے انتہا کو پہنچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فرقہ پرستوں کی سازشوں سے چوکنا رہنا چاہئے۔ حالیہ الیکشن میں مسلمانوں نے متحد ہو کر انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ کرناٹک کی مثال ہمارے سامنے ہیں ۔