مساجد کے خلاف مقدمات کو روکنے کیلئے ایودھیا کا فیصلہ ہر ضلعی عدالت، ہائی کورٹ میں پڑھا جائے
سپریم کورٹ کے سابق جسٹس نریمن نے حالیہ دنوں میں درگاہوں اور مساجد کے خلاف سروے کی درخواستوں پر مشورہ دیا
نئی دہلی ،06 دسمبر :۔
آج 6دسمبر ہے اور آج ہی کے دن 1992 میں ایودھیا واقع تاریخی بابری مسجد کو ہندو شدت پسندوں کے گروپ میں حملہ کر کے شہید کر دیا تھا ۔بابری مسجد کے منہدم کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے ملک کی عدالت عظمیٰ نے مزید ستم کرتے ہوئے ہندو اکثریت کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا اور وہاں آج رام مندر کی تعمیر ہو چکی ہے۔مندر کے فیصلے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اب مساجد کے خلاف شر پسندوں کی ہنگامہ آرائی بند ہو جائے گی لیکن یہ سلسلہ بند ہونے کے بجائے مزید تیزی سے شروع ہو گیا ہے۔حالیہ دنوں میں عروج پر ہے اور یکے بعد دیگرے تمام قدیم اور تاریخی مساجد کو مندر ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے فیصلے کے دوران کچھ ایسی ہدایتیں بھی رقم کی تھیں جواس طرح کےدعوؤں کو ضرب لگانے والی ہیں لیکن ان احکامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس روہنٹن نریمن نے جمعرات کو ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف اور سیکولرازم کا مذاق اڑایا گیا ہے، لیکن فیصلے کے پانچ صفحات 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون کی توثیق کرتے ہوئے ایک اچھی بات ہے۔
جسٹس نریمن نے مزید کہا کہ ایودھیا تنازعہ پر آئینی بنچ کے فیصلے کے وہ پانچ صفحات ملک بھر میں جاری قانونی چارہ جوئی کا جواب ہیں، جس میں ان مساجد کا سروے کرنے کی مانگ کی گئی ہے جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ماضی میں مندر وں کے اوپر بنائی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ یہی آئینی بینچ اس پر پانچ صٖفحات خرچ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ سیکولرز میں درست ہے جو بنیادی ڈھانچے کا حسہ ہے کہ آپ پیچھے نہیں دیکھ سکتے آپ کو آگے دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے آج کے حالیہ مساجد کے مندر ہونے کے دعوے اور سروے کے احکامات کے تناظر میں مزید کہا کہ ان پانچ صفحات کو ملک کی ہر ڈسٹرکٹ کورٹ اور ہائی کورٹ میں پڑھا جانا چاہیے، تاکہ مختلف مذہبی ڈھانچوں کے خلاف ایسے دعوے نہ کیے جا سکیں۔
2019 کے بعد سے، خاص طور پر شمالی ہندوستان میں، متعدد مقدمات سول عدالتوں میں دائر کیے گئے ہیں جن میں مساجد کی تعمیر کے لیے ماضی میں مبینہ طور پر تباہ کیے گئے مندروں کی "بحالی” کی درخواست کی گئی ہے۔
ان میں سب سے حالیہ سنبھل جامع مسجد کا معاملہ ہے، جس میں حال ہی میں ایک سول عدالت نے اس دعوے پر سروے کا حکم دیا کہ یہ ایک مندر پر تعمیر کی گئی تھی۔متعلقہ طور پر، عبادت گاہوں کا ایکٹ وہ قانون جو 15 اگست 1947 کو کسی بھی عبادت گاہ کو اس کی حیثیت سے تبدیل کرنے پر پابندی لگاتا ہے – فی الحال سپریم کورٹ کے سامنے چیلنج ہے۔2019 میں، سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ پر اپنے تاریخی فیصلے میں 1991 کے قانون کی تعریف کی تھی۔ریاست قانون بنا کر آئینی وابستگی کو نافذ کرتی ہے اور تمام مذاہب اور سیکولرازم کی مساوات کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داری کو نبھاتی ہے، جو کہ آئین کی بنیادی خصوصیات کا ایک حصہ ہے۔
جسٹس نریمن احمدی فاؤنڈیشن کے افتتاحی لیکچر سے خطاب کر رہے تھے، جس کا قیام ہندوستان کے 26ویں چیف جسٹس (سی جے آئی) جسٹس عزیز مشبر احمدی کی یاد میں کیا گیا ہے۔تقریب میں جسٹس احمدی کی سوانح عمری ’دی فیئرلیس جج‘ کا بھی اجرا عمل میں آیا۔