مساجد سے متعلق شر انگیزی کی تمام حدیں پار،دہلی کی جامع مسجد کے بھی سروے کا مطالبہ
اجمیر درگاہ کے سروے کی عرضی دینے والے ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے محکمہ آثار قدیمہ کو خط لکھا،مسجد کی تعمیر میں مندروں کی باقیات کے استعمال کا الزام عائد کیا
نئی دہلی ،04 دسمبر :۔
مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور درگاہوں کے خلاف شر انگیزی کی مہم مزید تیز ہو گئی ہے ۔ ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا سے متعلق عدالتی فیصلوں نے ہندو شدت پسندوں کے حوصلوں کو بلند کر دیا ہے۔اب انہوں نے تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے دہلی کی شاہی جامع مسجد کے سروے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔در اصل حکومت کی حوصلہ افزائی اور ذیلی عدالتوں کے یکطرفہ فیصلوں نے شدت پسندوں کی اس مہم کو مہمیز دی ہے۔حالیہ دنوں میں سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کے فوری اور یکطرفہ فیصلے نے ان کے لئے دیگر عبادت گاہوں اور درگاہوں کے خلاف بے تکے دعوے کی حوٖصلہ افزائی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجمیر کے درگاہ کے خلاف عرضی منظوری ہونے کے بعد اب دہلی کی شاہی جامع مسجد کے بھی سروے کا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھ کر جامع مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے دعویٰ کیا ہے کہ اورنگ زیب نے جودھ پور اور اد پر کے کرشنا مندروں کو منہدم کر دیا تھا ۔اور انہیں مندروں کے باقیات سے دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں کی تعمیر کی گئی ہےان مندروں کے باقیات اب بھی موجود ہیں ۔وشنو گپتا کا دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ جب خان جہاں بہادر نے مندروں کو توڑا اور انہیں لوٹا اور مجسموں کو توڑا تو شہنشاہ بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد ٹوٹی ہوئی مورتیوں کی باقیات کو بیل گاڑیوں کے ذریعہ دہلی بھیجا گیا ۔
خط میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ مندروں کی باقیات بشمول دیوتاؤں کی مورتیوں کو مغل "حملہ آور اورنگ زیب” نے ہندوؤں کو "ذلیل” کرنے کے لیے مسجد کی سیڑھیوں پر رکھا تھا۔ان کے خط کے مطابق، ’’اس سے میرے مذہبی جذبات اور سیڑھیوں کے نیچے دبے دیوتاؤں کی پوجا کرنے کے حق کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔‘‘لہذا ان مورتیوں کو وہاں سے نکالا جائے اور انہیں مندروں میں پھر سے نصب کیاجائے اور اورنگ کے مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔
واضح رہے کہ پچھلے مہینے، اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں، شاہی جامع مسجد کے عدالتی حکم پر کیے گئے سروے نے کشیدگی کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں احتجاج، پولیس کے ساتھ جھڑپیں، اور سروے کی مخالفت کرنے والے مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ میں چھ مسلم نوجوانوں کی موت ہو گئی۔
اس سے پہلے بھی اجمیر درگاہ کے سروے کا مطالبہ کرنے والی عرضی بھی وشنو گپتا نے ہی دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ درگاہ اصل میں شیو مندر تھی۔