مساجد اور درگاہوں کے سروے احکامات سے سابق افسران فکر مند،وزیر اعظم کو خط
نجیب جنگ،ایس وائی قریشی اور جنرل ضمیر الدین شاہ سمیت متعدد سابق افسران نے اجمیر درگاہ پر دعوے کو ہندوستان کے تہذیبی ورثے پر ایک نظریاتی حملہ قرار دیا
نئی دہلی ،04 دسمبر :۔
ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر سے حوصلہ افزا ہندو شدت پسند گروپ اب ملک بھر میں قدیم اور تاریخی مساجد کےخلاف زور و شور سے اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ایودھیا کے بعد کاشی ،متھرااور سنبھل کی جامع مسجد میں سروے تنازعہ اور تشدد کے بعد بھی شدت پسندوں کی مہم جاری ہے۔ اب تو تمام حدیں پار کرتے ہوئے800 سالہ اجمیر کی درگاہ اور دہلی کی تاریخی جامع مسجد کا بھی سروےکا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔در اصل قدیم مساجد اور درگاہوں کر مندر ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو عدالتوں کی حوصلہ افزائی بھی حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ آئے دن ایسی درخواستیں عدالتوں میں دی جا رہی ہیں جس سے ملک کا امن و امان خراب ہو رہا ہے۔ملک کی اس بگڑتی فضا پر ملک کا دانشور طبقہ بھی فکر مند ہے۔خاص طور پر اجمیر درگاہ کے سروے کے مطالبے نے بے چینی میں اضافہ کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سابق بیوروکریٹس اور سفارت کاروں کے ایک گروپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر اس فیصلے کو ہندوستان کے تہذیبی ورثے پر ایک نظریاتی حملہ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے اس ’غیر قانونی اور نقصان دہ‘ کارروائی کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
خط میں سابق دہلی لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق وائس چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ اور آر بی آئی کے سابق ڈپٹی گورنر روی ویرا گپتا سمیت دیگر اہم شخصیات کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے خود سالانہ عرس کے موقع پر درگاہ کو چادر پیش کی ہے، جو امن اور ہم آہنگی کا پیغام ہے۔
سابق افسران نے خط میں کہا، ’’یہ تصور ناقابلِ فہم ہے کہ 12ویں صدی کے صوفی خواجہ معین الدین چشتی، جو رواداری اور ہم آہنگی کے علمبردار تھے، کسی مندر کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔‘‘ خط میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ دہائی کے دوران مذہبی تعلقات خصوصاً ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، جس نے اقلیتوں کو بے چینی اور عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ گزشتہ سالوں میں گائے کے گوشت کے الزام پر مسلمانوں کو ہراساں کرنا، لنچنگ کے واقعات اور اسلام مخالف تقاریر جیسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مسلم کاروباروں کے بائیکاٹ، کرائے پر مکانات نہ دینے اور مکانات کو مسمار کرنے کی کارروائیاں سامنے آئیں۔
سابق سفارت کاروں نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ تمام ریاستی حکومتوں کو آئین اور قانون کی پاسداری یقینی بنانے کی ہدایت کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے تحفظ کے لیے بین المذاہب اجلاس کی ضرورت ہے، جہاں وزیر اعظم خود ایک متحد ہندوستان کا پیغام دیں۔
خط کے اختتام پر کہا گیا، ’’وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، ہم وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ تمام ہندوستانیوں کو، خاص طور پر اقلیتوں کو یقین دلائیں کہ ان کی حکومت فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘
خیال رہے کہ 27 نومبر کو اجمیر کی ایک سول عدالت نے ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا کی اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے درگاہ کمیٹی، مرکزی وزارتِ اقلیتی امور اور محکمہ آثارِ قدیمہ (اے ایس آئی) کو نوٹس جاری کیے ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ درگاہ اصل میں ایک شیو مندر تھی۔