مرکز  کا کرناٹک ہائی کورٹ سے سری رنگا پٹن جامع مسجد میں چل رہے مدرسہ کو ہٹانے کا مطالبہ

مرکزی حکومت نے  محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ہونے کا حوالہ دے کر مدرسہ سر گرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا،وقف بورڈ کی مخالفت

نئی دہلی ،14 نومبر :۔

مدرسہ ،مسجد،درگاہ اور وقف بورڈ کے خلاف پہلے ہی مہم شروع ہو چکی ہے اب مرکزی حکومت نے کرناٹک میں سری رنگا پٹنہ جامع مسجد میں چلنے والے مدرسے کو بند کرنے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت نے کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ   عدالت منڈیا ضلع انتظامیہ اور ریاستی حکومت کو سری رنگا پٹن کی جامع مسجد کے اندر چلنے والے  مدرسہ کو ہٹانے کی ہدایت د ے۔جو کہ 1951 میں ایک محفوظ یادگار کے طور پر نامزد کیا گیا  ہے۔ مرکزی حکومت کے اس اپیل کی وقف بورڈ نے  مخالفت کی ہے اور کہا  کہ مسجد اس کی ملکیت ہے اور  مدرسہ وقف کے مطابق جائز طریقے سے چل رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ  معاملہ  کنکا پورہ تعلقہ کے ابھیشیک گوڑا کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی عرضی (PIL) کے بعد عدالت میں لایا گیا تھا، جس میں مسجد میں "غیر قانونی مدرسہ سرگرمیوں” کا الزام لگایا گیا تھا۔

مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے اروند کامتھ نے دلیل دی کہ سائٹ  کو محفوظ یادگار قرار دیئے جانے کی حیثیت کے باوجود  مدرسہ کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ انہوں نے امن و امان کے مسائل پر تشویش کا حوالہ دیا،اور کارروائی کے لیے عدالتی ہدایات کی درخواست کی۔

دوسری طرف، ریاستی حکومت اور وقف بورڈ کے قانونی نمائندوں نے یہ کہتے ہوئے د دفاع کیا کہ  وقف بورڈ 1963 سے جائیداد کا تسلیم شدہ مالک ہے۔ انہوں نے  کہا کہ مسجد کے اندر مدرسہ کی کارروائیاں وقف قانون کے تحت جائز ہیں۔چیف جسٹس این وی انجاریا کی قیادت میں ڈویژن بنچ نے مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے اگلی سماعت 20 نومبر کو مقرر کی۔

واضح رہے کہ سری رنگا پٹن جامع مسجد کو لے کر پہلے بھی تنازعہ رہا ہے۔ہندو شدت پسندوں کی جانب سے اسے ایک مندر قرار دے کر ہنگامہ کیا جاتا رہا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک PIL دائر کی گئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سری رنگا پٹن میں واقع جامع مسجد کا موجودہ ڈھانچہ ٹیپو سلطان نے موڈلا بگیلو انجنےیا سوامی مندر کی جگہ بنایا تھا۔ یہ عرضی بجرنگ سینا نامی تنظیم نے دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ مندر کو ٹیپو سلطان نے جزوی طور پر گرایا تھا اور پھر یہاں جامع مسجد بنائی گئی تھی۔