مرکزی حکومت کا یونیفار م سول کوڈ اقلیتوں کے منفرد شناخت کو ختم کرنے کی کوشش
شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی کی میٹنگ،تنوع میں اتحاد کی روح کے لئے نقصاندہ قرار دیا
نئی دہلی ،10جولائی:۔
ملک بھر میں یکساں سول کوڈ پر ہنگامہ جاری ہے ۔ایک طرف جہاں مسلمان اجتماعی طور پر اس کی مخالفت میں آواز بلند کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب سکھوں عیسائیوں اور متعدد قبائلی برادری سے وابستہ تنظیموں نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے مسترد کر نے کی بات کہی ہے ۔اب سکھوں نے یو سی سی کے خلاف اپنی آواز مزید سخت کر دی ہے ۔سکھنوں کی منی پرلیمنٹ سمجے جانے والے ادارے شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) پر زو ر مخالفت کرتے ہوئے اس کو ملک کی اقلیتوں کے وجود اور ان کی منفر د شناخت کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران ایس پی جی نے کہا کہ سکھوں کے مریادہ(قوانین) کو دنیاوی قوانین پر پرکھا نہیں جا سکتا ۔ایس جی پی سی کے صدر ہر جندر سنگھ دھامی کی صدارت میں سکھوں کے سرردہ ادارے نے اپنی مجلس عاملہ میں انتہائی غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کی ضرورت نہیں کیونکہ آئین تنوع میں اتحاد کو تسلیم کرتا ہے ۔ہر جندر سنگھ دھامی نے کہا کہ اس سے ملک میں اقلیتی برادریوں کی منفرد نقشناخت ک نقصان پہنچے گا۔انہوں نے اس موقع پر یکساں سول کوڈ کے بارے میں ملک کی اقلیتوں کے خدشات کے بارے میں بھی بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی اقلیتوں کو یہ خطرہ ہے کہ اس سے ان کی منفرد شناخت اور مذہبی اصولوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔
اس موقع پر ہرجندر سنگھ دھامی نے اقلیتوں کے خدشات اور خطرات کا بھی ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے اقلیتوں کو خطرہ ہے کہ ان کی مذہبی شناخت اور اصولوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایس جی پی سی نے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کی پہل کی ہے جس میں سکھ دانشوروں، مورخین، اسکالرز اور وکلاء شامل ہیں۔ یہ ذیلی کمیٹی سکھ برادری پریو سی سی کے ممکنہ اثرات کا مطالعہ کرے گی، سکھ اصولوں اور روایات کے ساتھ اس کی مطابقت کا جائزہ لے گی اور سکھ برادری کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع ردعمل یا حکمت عملی مرتب کرے گی۔
دھامی نے سکھ برادری کے بنی بانا (گربانی اور روایتی سکھ لباس)، بول بالے (اعلیٰ اور اعلیٰ الفاظ یا خیالات)، اصولوں، روایات، اقدار، طرز زندگی، ثقافت، آزاد وجود، اور الگ شناخت کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ سکھ مذہب کے ان پہلوو ¿ں پر کوئی بھی چیلنج برداشت یا قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں، انہوں نے زور دیا کہ سکھ مریادہ (ضابطہ اخلاق) کو سیکولر یا دنیاوی قوانین کی بنیاد پر جانچا نہیں جا سکتا ۔