مرکزی تعلیمی بورڈ ، جماعت اسلامی ہند نےاسکولوں سے’ڈٹینشن پالیسی‘ ختم کرنےپر تنقیدکی
حکومت سے آر ٹی ای ترمیم پر نظرثانی کا مطالبہ،کمزور طبقات کے طلبا کیلئے حالیہ ترمیم کو نقصاندہ قرار دیتے ہوئےتدریسی عمل کو بہتر بنانے کی اپیل
نئی دہلی،25 دسمبر :۔
مرکزی حکومت نے رائٹ ٹو ایجوکیشن (RTE) قانون میں ترمیم کے ذریعے طے کیا ہے کہ اب جماعت پنجم اور ہشتم کے امتحانات میں ناکام ہونے والے طلبہ کو اگلی جماعتوں میں داخلے کا اہل قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس ترمیم کی مرکزی تعلیمی بورڈ نے مذمت کی ہے۔ مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے سیکرٹری سید تنویر احمد کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم خصوصاً اُن طلبہ کے لیے نقصان دہ ہو گی جو کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ حکومت کو اس قانون میں ترمیم کرنے کے بجائے کچھ اہم نکات پر غور اور ضروری اقدامات کرنا چاہیے تاکہ تعلیم کا معیار بہتر ہو سکے۔ سب سے پہلے، حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسکولوں میں تدریسی عمل کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کو معقول تربیت دی جائے تاکہ وہ کلاس رومز کو ایک ایکٹیو لرننرس کلاس روم (Active Learners Classroom )میں تبدیل کر سکیں۔ اس تربیت کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اساتذہ جوائے فل لرننگ (Joyful Learning) کے تصور کو عملی طور پر نافذ کریں، جس سے طلبہ کی تعلیم کا معیار بلند ہو سکے۔ تعلیمی نظام میں چائلڈ اسفدسینٹرڈ (طلبہ پر مرکوز) ایجوکیشن سسٹم کو مکمل طور پر اپنانا چاہیے۔ اس کو موثر بنانے کے لیے کنٹنیوس اینڈ کمپرہنسیو ایولیوشن سسٹم (Continuous and Comprehensive Evalution System) اختیار کیا جانا چاہئے، جس سے طلبہ کی ہمہ جہت ترقی ہو سکے۔ موجودہ امتحانی نظام میں زیادہ ترتوجہ بچوں کی یادداشت پر ہوتی ہے ، جو ان کی حقیقی سیکھنے کی صلاحیتوں کو محدود کرتی ہے۔ نئے نظام میں طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیت اور عملی زندگی کے لیے تیاری پر زور دیا جانا چاہیے۔ اس پالیسی کا منفی اثر خاص طور پر سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ پر پڑ سکتا ہے، کیونکہ یہاں اکثریت غریب گھرانوں کے بچوں کی ہوتی ہے جو دیگر سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں طلبہ کے لیے اضافی ٹیوٹرنگ اور دیگر معاون خدمات کی کمی ہوتی ہے، جس کے باعث ان کا تعلیمی معیار کم رہتا ہے۔ اس صورت میں، اس طرح کی پالیسی پسماندہ طبقات کے بچوں کو مزید پسماندہ کر سکتی ہے۔پالیسی میں اس ترمیم کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں جو طلبہ فیل ہو جاتے ہیں انہیں اسکولوں اور سماج میں ایک لیبل لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی کم زوری کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
یہ پالیسی تبھی مؤثر ہو سکتی ہے جب تمام طلبہ کے لیے یکساں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس پالیسی کے ذریعے پرائیویٹ خوانگی اسکولوں کی اہمیت میں اضافہ ہوگا جبکہ سرکاری اسکولوں کی طرف عوام کا رجحان کم ہوتا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم کے میدان میں وہ ایسے اقدامات سے پرہیز کرے جو تعلیم کی نجکاری (پرائیوٹائزیشن) کو فروغ دیتے ہیں۔ چودہ سال کی عمر تک بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔لہذا، ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس پالیسی پر نظر ثانی کرے اور سرکاری اور کمزور اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دے۔ کنٹنیوس اینڈ کمپرہنسیو ایولیوشن سسٹم (CCE) کو اپنایا جائے اور طلبہ کو ایسا لائق بنایا جائے کہ وہ اپنی عمر کے مطابق مؤثر تعلیم حاصل کر سکیں۔