مرکزی بجٹ 2025-26 نے متوازن معاشی ترقی کے بہت سے مواقع ضائع کردیے

امیر جماعت اسلامی ہند ، سید سعادت اللہ حسینی نےمیں انکم ٹیکس میں کی جانی والی کٹوتی، چھوٹ کی حد کو بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنا اور متوسط طبقے کے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے سلیب کو ایڈجسٹ کرنا  وغیرہ جیسے اقدامات کی ستائش کی

نئی دہلی04 فروری :۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مرکزی بجٹ 2025-26 پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اپنے سالانہ بجٹ میں بہت سے مواقع ضائع کر دیے ہیں۔

میڈیا کے لیے جاری ایک بیان میں جماعت اسلامی ہند کے امیر سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ہم مرکزی حکومت کے بجٹ 2025-26 میں شامل بہت سے مثبت پہلوؤں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس بجٹ میں انکم ٹیکس میں کی جانی والی کٹوتی، چھوٹ کی حد کو بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنا اور متوسط طبقے کے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے سلیب کو ایڈجسٹ کرنا جیسی چیزیں قابل ستائش ہیں۔ حکومت کے اس قدم سے ٹیکس دہندگان کی جہاں ایک طرف بچت ہوگی وہیں دوسری جانب متوسط طبقہ زیادہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا ۔اس سے ملک میں ترقی کی رفتار تیز ہوگی۔

سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اس بجٹ کی دوسری مثبت بات یہ ہے کہ ایک لاکھ کروڑ روپے کے مالیاتی نقصان کے باوجود بجٹ مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 4.4 فیصد تک برقرار رکھنے سے قرضے پر قابو رکھنے میں مدد ملے گی ۔ انہوں نے کہا کہ قرضے پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے ریگولیٹری اصلاحات پر بھی زور دیا جائے جس سے کہ لوگوں کو کاروبار کرنے میں آسانی اور سرمایہ کاری میں مدد ملے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر نے مزید کہا کہ ان مثبت باتوں کے اعتراف کے ساتھ ہی اس بجٹ سے کئی حوالوں سے مایوسی بھی ہے۔ روزگار کے شدید بحران کی وجہ سے نوجوان طبقے میں بڑھتی بے روزگاری، جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی ایسے مسائل ہیں جس سے سرمایہ اور زرعی نمو کی بنیاد پر وزیر مالیات کے لیے معاشی پالیسی پر نظر ثانی کا ایک اچھا موقع تھا تاکہ سب کو انصاف اور مساوی ترقی کے مواقع مل سکیں۔ جماعت اسلامی ہند نے بجٹ سے پہلے ملک میں پھیلی عدم مساوات، بے روزگاری اور پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اپنی تجاویز وزارت خزانہ کو پیش کی تھیں۔ ان تاجویز میں سپلائی سائیڈ حکمت عملی سے آگے بڑھنے کی بھرپورتائد کی گئی تھی۔ اس کے تحت کاروباری ترقی اور ٹیکس مراعات پر خصوصی توجہ دلائی گئی تھی۔ ڈیمانڈ سائیڈ اپروچ جس کا مقصد شہریوں کی قوت خرید کو بڑھانا، کھپت کو متحرک کرنا اور فلاح و بہبود کوفروغ دینا ہے۔ لیکن یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب ہم نے بجٹ کا جائزہ لیا  تو محسوس ہوا کہ ہماری زیادہ تر تجاویز کو حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔ حکومت کو بجٹ 2025-26 کو وسیع تر مفاد میں دیکھنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس بجٹ میں  کل اخراجات میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ کی کمی ہوئی ہے۔ اس سے سماجی اور فلاحی اخراجات پر منفی اثر پڑے گا اور غریبوں کی حالت زار میں مزید خراب ہوگی۔

سید سعادت اللہ حسینی نے آگے کہا کہ ہم نے حکومت سے منریگا میں کی گئی کٹوتیوں کو واپس لینے، شہری روزگاراسکیموں کوعوام میں متعارف کرانے، طبی خدمات کے اخراجات کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک بڑھانے اور جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کرنے کے ساتھ ایک جامع تعلیمی مشن شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس بجٹ میں اقلیتوں اور ایس سی ایس ٹی کی ترقی کے لیے واضح طور سے کوئی پالیسی نہیں بیان کی گئی ہے ۔ اس کی وجہ سے سماجی انصاف کے بہت سے مسئلے حل نہیں ہو پائیں گے۔ ہم نے ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی کو 5 فیصد کی حد تک محدود کرنے، لگژری ٹیکس متعارف کرانے، بڑی کارپوریشنوں پر ونڈ فال ٹیکس لگانے اور ریاستوں کا حصہ بڑھانے کا مشورہ دیا تھا۔ بدقسمتی سے بجٹ ان اہم محاذوں پر خاموش ہے۔ اسی طرح بجٹ میں غیر ملکی ٹیک کمپنیوں پرڈیجیٹل ٹیکس ، انفراسٹرکچر بانڈز، اور مضبوط سی ایس آر کے معیارات کو شامل نہیں کیا گیا ۔ ان اصلاحات کی عدم موجودگی غیر برابری کو دور کرنے، فلاحی پروگراموں کے لیے آمدنی پیدا کرنے اور مالیاتی انصاف کو یقینی بنانے کے ہدف سے دور کرتی ہے۔ ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ حکومت کو ایک ترقی پسند ریونیو پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جو عام شہریوں کو ترجیح دے اور مساوی ترقی کے لیے کام کرے ۔

جماعت اسلامی کے امیر نے موجودہ بجٹ پر اپنے ردعمل کے آخرمیں کہا کہ جیسا کہ بجٹ 2025-26 سے ظاہر ہے کہ اخراجات کا ایک بڑا حصہ (20%) قرض پر سود کی ادائیگی پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ جبکہ پیداواری اخراجات کو ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کے جال میں پھنسنے سے بچنے کے لیے ہمیں ایک جرات مندانہ قدم اٹھانا چاہیے۔ ایکویٹی پر مبنی مالیاتی ماڈل اور اس مقصد کے لیے ہم روایتی بینکوں میں سود سے پاک بینکنگ ونڈو کو متعارف کرکے ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں۔ ہم نے یہ تجویز وزارت مالیات کو دی تھی۔ ہمیں مالی اور اقتصادی چیلنجوں کا مقاملہ کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنا چا ہئے۔ہمیں امید ہے کہ حکومت متعصبانہ اور ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھ کر اس بجٹ کو معاشی پالیسی میں حقیقی تبدیلی کا ایک ذریعہ بنائے گی۔جس سے ملک اورعوام کو حقیقی معاشی ترقی حاصل ہو سکے۔