مردوں کے بعد اب وشو ہندو پریشد خواتین میں بھی ہتھیار تقسیم کرے گی

دہلی میں 20 ہزار سے زیادہ خواتین میں کٹار تقسیم کرنے کی تیاری، ہتھیار چلانے کی ٹریننگ بھی دی جائے گی

نئی دہلی،11 جنوری :۔

دہلی اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا علان ہو چکا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے انتخابی تیاریوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔دریں اثنا  اسمبلی انتخابات کے دوران راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)  اور دیگر ہندوتو نواز تنظیمیں بھی اپنے طور پر  سر گرم ہیں خاص طور پر وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) دہلی میں بڑے پیمانے پر ہتھیار تقسیم کر رہی ہے۔

حالیہ دنوں میں  وی ایچ پی منصوبہ بند طریقے سے دہلی کے 50 ہزار نوجوانوں  میں ترشول  تقسیم کیا تھا، جس میں کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ اب وی ایچ پی نے مردوں کی طرح ہندو خواتین اور کم عمر لڑکیوں میں ہتھیار تقسیم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق    اس ماہ یہ تنظیم ‘شستر دکشا سماروہ ‘ کے تحت 20 ہزار سے زیادہ خواتین کو کٹار دینے جا رہی ہے۔ وی ایچ پی کے سینئر رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اس میں اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن کم ہرگزنہیں ہوگا۔

وی ایچ پی اپنی خواتین سے متعلق تنظیم ‘ماتری شکتی-درگا واہنی’ کے جھنڈے تلے ‘شستر دکشا سماروہ ‘ کا انعقاد کر رہی ہے۔ یہ تقریب 12 جنوری (سوامی وویکانند کی یوم پیدائش) سے شروع ہو رہی ہیں۔ پہلی تقریب نئی دہلی کے پہاڑ گنج میں واقع نوتن مراٹھی پبلک اسکول کے احاطے میں ہونے والی ہے۔

وی ایچ پی کے دہلی کے ریاستی وزیر سریندر گپتا کے مطابق، ’12 جنوری کو دو ہزار سے زیادہ کٹار تقسیم کیے جائیں گے۔ اس کے بعد 15 فروری تک دہلی کے ہر ضلع میں ‘شستر دکشا سماروہ’ منعقد کی جائے گی اور 20 ہزار سے زیادہ کٹار تقسیم کیے جائیں گے۔’ وہیں پرانت سنگٹھن منتری سبودھ چندر کا کہنا ہے کہ ‘ 12 تاریخ کو تین ہزار سے زیادہ کٹارتقسیم کیے جائیں گے اور مجموعی طور پر 30 ہزار کٹار تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے۔

درگا واہنی کی صوبائی کوآرڈینیٹر ارونا راٹھور کے مطابق ، ‘درگا واہنی کے ایک رکن کو 25 خواتین کو شستر دکشا سماروہ سے جوڑنے کی  ذمہ داری دی گئی ہے۔ بہنوں کو بتانا ہے کہ ہتھیارلینا کیوں ضروری ہے۔ جس طرح ‘ماں  درگا’ کے ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے، اسی طرح دہلی کی بہنوں کے ہاتھ میں کٹارہوگا۔

ہتھیاروں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وی ایچ پی  کے دہلی ریاستی دفتر میں پروگرام کی تیاریوں میں مصروف درگا واہنی کی چترا کہتی ہیں،’ہم بازار یا کالج جاتے ہیں اور مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے، وہاں کئی طرح کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اگر ہمارے پاس ہتھیار ہوں گے تو ہم خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم پاس پڑوس  کی بہنوں کو بھی محفوظ رکھ سکیں گے۔’