مرادا ٓباد:مسلم اکثریتی سیٹ کندرکی میں 31 سال بعد بی جے پی کی جیت
60 فیصد سے زائد آبادی والی مسلم اکثریتی سیٹ کندرکی میں1993 میں بی جے پی جیتی تھی ،پھر 31 برسوں بعد پہلی مرتبہ کمل کھلا ہے،ایک ہندو امیدوار اور گیارہ مسلم امیدوارمیدان میں تھے
نئی دہلی ،مرادآباد، 23 نومبر :
مہاراشٹر میں بی جے پی نے زبر دست جیت کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر ی ہے۔وہیں جھارکھنڈ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اتر پردیش کی نو اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات نے حیران کرنے والے نتائج دیئے ہیں ۔ نو میں سے سات پر بی جے پی اتحاد کی جیت ہوئی ہے۔صرف دو سیٹوں پر ایس پی کی جیت نے عزت رکھی ہے۔اتر پردیش کے تمام سیٹوں میں سب سے زیادہ حیران کن اور چونکانے والی بی جے پی کی جیت کندرکی سیٹ پر ہوئی ہے۔ 60 فیصد سے زائد مسلم آبادی والی اس سیٹ پر 31 برسوں کے بعد بی جے پی کو جیت ملی ہے۔ جو حیران کن ہے۔اس جیت پر بی جے پی کا خوش ہونا بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار رامویر سنگھ ٹھاکر نے سماج وادی پارٹی کے امیدوار محمد رضوان کو 143192 ووٹوں سے شکست دی۔ بی جے پی کے رامویر کو 168526 ووٹ ملے۔ جبکہ ایس پی کے محمد رضوان کو صرف 25334 ووٹ ملے۔ کندرکی سیٹ پر پہلی مرتبہ بی جے پی نے سال 1993 میں جیت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد بی جے پی کے امیدوار کسی بھی الیکشن میں جیت درج نہیں کر سکے۔
کندرکی اسمبلی سیٹ پر بی جے پی کی جیت کی پیچھے متعدد وجوہات ہیں کندرکی سیٹ پر 60 فیصد مسلم اور 35 فیصد ہندو ووٹر ہیں اس کے باوجود بی جے پی کے رام ویر کیسے جیت گئے۔ در اصل بی جے پی نے اس سیٹ پر ایک ہیں تو سیف ہیں کے نعرے پر عمل کیا ہے ۔ اگر یہاں کے امیدواروں پر غور کریں تو کندرکی اسمبلی میں بی جے پی، ایس پی، بی ایس پی سمیت کل 12 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے تھے۔یہاں پر بی جے پی کی جانب سے صرف ایک ہندو امیدوار تھا جبکہ ایس پی بی ایس پی اور دیگر آزاد امیدوار سمیٹ کل گیارہ امیدوار مسلم تھے۔ایک ہندو امیدوار کاگیارہ مسلم امیدواروں سے مقابلہ تھا تو جیت تو ایک ہی کی ہونی تھی اور بی جے پی کا ہندو امیدوار کامیاب ہو گیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایس پی ،بی ایس پی ،آزاد سماج پارٹی،اے آئی ایم آئی ایم ،سمراٹ مہیر بھوج سماج پارٹی ان تمام پارٹیوں کی جانب سے مسلم امیدوار میدان میں تھے،اس کے علاوہ چھ آزاد امیدوار بھی مسلم ہی تھے۔جس کی وجہ سے60 فیصد مسلمانوں کا ووٹ گیارہ امیدواروں میں تقسیم ہو گیا اور بی جے پی کے ایک ہندو امیدوار کو ہندو ووٹروں نے یکطرفہ ووٹ دے کر جیت سے ہمکنار کیا۔
اس سیٹ پر بی جے پی کے امیدوار رامویر سنگھ ٹھاکر کو 168526، ایس پی کے محمد رضوان کو 25334، بی ایس پی کے رفعت اللہ کو 1089، آزاد سماج پارٹی کے چاند بابو کو 14142، اے آئی ایم آئی ایم کے محمد وارث کو 7973،سمراٹ مہیر بھوج سماج پارٹی شہذیب کو 99 ووٹ ملے۔ اس کے علاوہ آزاد امیدواروں میں مسرور کو 140،محمد اویس ولد رضوان 118،محمد اویس ولد حنیف259،رضوان علی 482، ، رضوان حسین 754، شوقین کو 291 اور نوٹا کو 576 ووٹ ملے۔
کندرکی کی نشست رکن اسمبلی ضیاء الرحمان برق کے استعفیٰ کے باعث خالی ہوئی تھی
ڈاکٹر شفیق الرحمان برق سال 2022 میں کندرکی اسمبلی میں سینئر رکن اسمبلی تھے۔ شفیق الرحمان برق کے پوتے ضیاء الرحمان برق نے بھی ایس پی سے الیکشن جیتا تھا۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں، ایس پی نے ضیاء الرحمن برق کو سنبھل لوک سبھا سے اپنے امیدوار کے طور پر کھڑا کیا اور وہ الیکشن جیت گئے۔ اس کے بعد ضیاء الرحمن برق نے کندرکی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ اسی لیے کندرکی اسمبلی میں ضمنی انتخاب ہوا۔