مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھنا ضروری:سپریم کورٹ

نفر انگیز بیانات پر فکر مند سپریم کورٹ کاحکومت پر سخت تبصرہ کہا قصور واروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ریاستیں کمزور

نئی دہلی ،30مارچ:۔

ملک میں اشتعال انگیز بیانات اور ایک خاص مذہب کے خلاف نفرت آمیز تقاریر پر سپریم کورٹ نے سخت تشویش اور فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہیٹ اسپیچ اس لئے ہو رہی ہیں کیونکہ ریاست کمزور  ہ گئی ہے جو وقت پر کارروائی نہیں کرتی ہے ۔کورٹ نے مزید کہ نفرت آمیز بیانات سے نجات کے لئے مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا ہوگا۔

جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ نے مزید کہا کہ جب یہ سب ہو رہا ہے تو ہمارے پاس ایک ریاست کیوں ہے؟ کورٹ کیرل کے ایک ملٹی میڈیا صحافی شاہین عبداللہ کی عرضی پر سماعت کر تے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ جس میں عدالت کی ہدایت کے باوجود کچھ ہندو تنظیموں کی ریلیوں میں اشتعال انگیز بیانات کو روکنے کے لئے کارروائی نہ کرنے کے لئے مہاراشٹر پولیس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بنیچ کے تبصرہ پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کیرل میں پی ایف آئی کی ایک ریلی میں ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف نعرے بازی کا ذکر کیا اور کہا کہ مرکز اس وقت بھی چپ نہیں تھا لیکن عدالت نے اس پر ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا ۔

جسٹس جوزف نے کہا کہ بڑا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب سیاسی رہنما اقتدار کے لئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں ۔سماعت کے دوران جسٹس ناگرتنا نے کہا کہ ہر طرف سے نفرت پھیلانے والے عناصر ناشائستہ زبان میں ملوث ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم جا کہاں رہے  ہیں ۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کبھی ہمارے پاس جواہر لال نہرواور اٹل بہار واجپئی جیسے مقرر تھے جنہیں سننے کے لئے لوگ دور دور سے جمع ہوتے تھے ۔

واضح رہے کہ  چند ماہ قبل بھی سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقریر کے معاملے پر سخت تبصرہ کیا تھا۔ جسٹس کے ایم جوزف نے کہا تھاکہ "یہ 21ویں صدی ہے، ہم مذہب کے نام پر کہاں آ گئے ہیں؟ ہمیں سیکولر اور روادار معاشرہ ہونا چاہیے، لیکن آج نفرت کا ماحول ہے۔ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ سماجی تانے بانے کو پارہ پارہ کیا جا رہا ہے۔ ہم نے ایشور کو کتنا چھوٹا کر دیا ہے۔ ان کے نام پر تنازعات ہو رہے ہیں۔