مدھیہ پردیش :گنا میں زبردستی ہنومان جینتی کا جلوس نکالا گیا
ہنومان جینتی کے دوران تشدد پر پولیس کی وضاحت،ایس پی نے کہا کہ جلوس کو مسجد کے قریب روکا گیا اور نعرے لگائے گئے

نئی دہلی ،15 اپریل :۔
حالیہ دنوں میں شدت پسند تنظیموں کے ذریعہ تہواروں خاص طور پر مذہبی جلوس اور شوبھا یاتراؤں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مساجد کے سامنے ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیز نعرے بازی کے سبب تشدد معمول بنتا جا رہا ہے۔ مدھیہ پردیش میں گزشتہ دنوں ہنومان جیتنی کے دوران جلوس میں تشدد پھوٹ پڑا جس پر ہنگامہ کھڑا کیا گیا اور مسلمانوں پر پتھر بازی کا الزام عائد کیا گیا ۔ دریں اثنا گنا میں ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران ہوئے تشدد کے بارے میں ایک بڑا بیان دیتے ہوئے ایس پی نے کہا کہ جلوس کو مسجد کے قریب روکا گیا اور زبردستی نعرے لگائے گئے۔
میڈیا رپورٹوں کےمطابق مدھیہ پردیش کے گونا میں بی جے پی رہنما گبر کشواہا نے ہنومان جینتی پر جلوس نکالا تھا جس میں مسجد کے قریب اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔
اس دوران ایک بار پھر میڈیا میں یہ افواہ اور فیک نیوز پھیلائی گئی کہ ہنومان جیتنی کے جلوس پر مسلمانوں نے پتھر بازی کی جس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں پروپیگنڈہ شروع ہو گیا ۔ اور بعض شدت پسند رہنماؤں کے دباؤ پر پولیس نے مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور پانچ افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔
اس معاملے پر گنا کے ایس پی سنجیو کمار سنہا نے بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ بغیر اجازت کے زبردستی جلوس نکالا گیا۔
اس دوران مظاہرین ایک مسجد کے قریب رک گئے اور نعرے لگائے۔ جس کی وجہ سے دونوں فریقوں میں جھگڑے کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ ایس پی نے کہا، میں نے خود سی سی ٹی وی دیکھے، کوئی پتھراؤ نہیں ہوا۔ دونوں فریقین سے بات چیت ہوئی ہے، امن قائم ہے۔
واضح رہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے مذہبی جلوس کو زبر دستی مسلمانوں کے محلے یا مساجد کے پاس روک کا ہنگامہ کیا جاتا ہے اور اشتعال انگیز نعرے بازی کی جاتی ہے۔ جس کے بعد تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔یہ چلن عام ہو گیا ہے اور سیدھے طور پر میڈیا مسلمانوں پر الزام لگا کر انہیں پتھر باز کہنا شروع کر دیتا ہے۔اس پر مزید پولیس انتظامیہ بھی عام طور پر مسلمانوں پر ہی کارروائی کرتی ہے۔ ایسا ہی واقعہ اندور کے مہو میں دو تین ہفتے پہلے پیش آیا تھا۔