مدھیہ پردیش میں ہجومی تشدد کےشکار  چوڑیاں بیچنے والے تسلیم علی بری

3 سال بعد پی او سی ایس او کیس میں ایک  عدالت نے بری کر دیا،نا کردہ گناہ کے عوض چار ماہ جیل میں گزارنا پڑااور ساڑھے تین سال تک قانونی جدو جہد کے بعد  کامیابی ملی

نئی دہلی ،04 دسمبر :

مسلمانوں کے خلاف پولیس ،انتظامیہ ،قانون اور ساتھ ہی حکومت کس قدر بھگوا شدت پسندوں کے دباؤ میں کام کر رہی ہے  یہ مدھیہ پردیش میں پیش آئے گزشتہ تین سال قبل 2021 میں ایک مسلم کے کیس سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو ان بھگوا شدت پسندوں کی تشدد کا شکار ہو گیا تھا ۔تین سال کی قانونی جنگ کے بعد عدالت نے اس مظلوم اور غریب مسلم نوجوان کو بری قرار دیا ہے۔اس سے قبل اس ناکردہ گناہ کے عوض اس مسلم نوجوان نے چار ماہ قید میں بھی گزارا۔

تقریباً چار سال تک جاری رہنے والی قانونی جنگ کے بعد، چوڑیاں بیچنے والے تسلیم علی جس کے خلاف پی او سی ایس او ایکٹ سمیت کئی مقدمات درج تھے، بالآخر 3 دسمبر کو اندور کی ایک عدالت نے تمام الزامات سے بری کر دیا۔

 

در اصل واقعہ یہ ہے کہ تسلیم علی جس کا تعلق اتر پردیش سے ہے، چوڑیاں بیچنے کے لیے مدھیہ پردیش کے اندور جایا کرتا تھا۔ اگست 2021 میں، بنگنگا کے گووند نگر میں چوڑیاں بیچتے ہوئے، ا نہیں مذہبی نفرت پر مبنی جرم کا نشانہ بنایا گیا جب ہندوتوا گروپ بجرنگ دل کے اراکین نے اس پر نابالغ لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا کر مارا پیٹا۔اس پورے واقعہ کا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا تھا۔اس ویڈیو میں شدت پسندوں  کے گروپ میں دو لوگ بھگوا پہنے ہوئے نظر آ رہے ہیں جو مسلسل مار رہے ہیں “اس کا بیگ کھولو۔ اسے نکالو۔ وہ پھر کبھی ہمارے علاقے میں نظر نہ آئے۔ ہمارے علاقے میں کبھی نہ آنا۔ کسی ہندو علاقے میں نہیں دیکھا جائے  ،” بجرنگ دل کے ایک حامی کو ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے جو اس وقت وائرل ہوا تھا۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد علاقے کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے علی پر حملے کے خلاف احتجاج کیاتھا۔

ابتدائی طور پر ہچکچاتے ہوئے اندور پولیس نے کہا کہ ایف آئی آر تبھی درج کی جائے گی جب کوئی بھیڑ کے خلاف شکایت کرے گا۔ کانگریس لیڈر عمران پرتاپ گڑھی نے تسلیم علی کو پولیس شکایت درج کرانے میں مدد کی۔تاہم، اگلے دن ایک جوابی ایف آئی آر درج کی گئی جس میں الزام لگایا گیا کہ علی نے 13 سالہ لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے نو سنگین الزامات شامل کیے جن میں پی او سی ایس او (جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کا قانون) شامل ہے۔اس کے بعد شدت پسندوں پر کارروائی کے بجائے الٹا تسلیم علی کو ہی پولیس نے گرفتار کر لیا ۔پولیس ،انتظامیہ کے علاوہ خود مدھیہ پردیش حکومت بھی شدت پسندوں کے دباؤ میں آ کر فوری کارروائی کرتے ہوئے سنگین دفعات جوڑ کر تسلیم علی کو گرفتار کر لیا۔تسلیم علی  کو 7 دسمبر 2021 کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے ضمانت  ملی لیکن اس سے  پہلے چار مہینے جیل میں گزارے۔

لیکن ان کی لڑائی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اگلے ساڑھے تین سال تک تسلیم علی عدالت میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر سوال اٹھاتے رہے۔ منگل کو اندور کی ایک عدالت نے بالآخر انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔اپنی  اس جیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، علی نے صحافیوں کو بتایا، “مجھے میرے وکلاء نے مکمل یقین دہانی کرائی تھی کہ مجھے بری کر دیا جائے گا۔ مجھے ان پر پورا بھروسہ تھا۔