مدھیہ پردیش:کم نمبر پانے والےہندو طلباء کامسلم پروفیسر کے خلاف احتجاج ،مذہب کی بنیاد پر تعصب کا الزام
وکرم یونیور سٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر انیس شیخ نے کہا خالی کاپی میں اچھا گریڈ کیسے ملے گا؟مذہبی تعصب کا الزام بے بنیاد
نئی دہلی ،بھوپال،24 جون :۔
فی الحال ملک کی ریاست مدھیہ پردیش ہندو شدت پسندوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔گؤ کشی کے نام پر مسلمانوں کا ہجومی تشدد کا معاملہ ہو یا تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر ہنگامہ کھڑا کرنا ہو۔مدھیہ پردیش ریاست سر فہرست بنتی جا رہی ہے۔تازہ معاملہ مدھیہ پردیش کے اجین میں وکرم یونیورسٹی کا ہے جہاں ہندو طلبا کے ایک گروپ نے کم نمبر آنے پر مسلم پروفیسر کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور مذہب کی بنیاد پر کم نمبر دینے کا الزام لگا کر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ طلباء کے ایک گروپ نے اپنے کیمسٹری کے پروفیسر انیس شیخ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر انہیں ان کے مذہب کی بنیاد پر خراب گریڈ دیا۔یہی نہیں انہوں نے مسلم پروفیسر پر تبدیلی مذہب کا بھی الزام لگایا۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے تعلق رکھنے والے کچھ طلبہ نے ابتدائی طور پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو پروفیسر انیس شیخ کے خلاف زبانی شکایت درج کرائی تھی۔انہوں نے گزشتہ روز جمعہ کی رات دیر گئے ایک تحریری شکایت بھی درج کرائی۔
یونیورسٹی میں فروری مارچ میں ہونے والے پانچویں سمسٹر کے امتحانات کے نتائج کا اعلان اس ہفتے کر دیا گیا ہے۔جس کے بعد کم نمبر ملنے پر طلباء نے یونیور سٹی انتظامیہ سے شکایت کی ۔اے بی وی پی سے جڑے طلباء نے نمبر کم آنے یا گریڈ کم دینے پر نہ صرف مذہب تعصب کا الزام لگایا بلکہ پروفیسر انیس شیخ کے خلاف تبدیلی مذہب کو فروغ دینے،نماز پڑھنے اور حجاب کرنے کی ترغیب دینے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔
شیخ انیس، جو گزشتہ 13 سالوں سے وکرم یونیورسٹی میں گیسٹ فیکلٹی کے طور پر پڑھا رہے ہیں، نے دی پرنٹ کو بتایا، "میں اوجس گپتا سمیت کسی بھی طالب علم کو جان بوجھ کر برا نمبر نہیں دے سکتا، کیونکہ امتحان دینے والے باہر سے آتے ہیں اور ویوا لیتے ہیں۔ جب پیپرز چیک کرنے کی بات آتی ہے تو ایک گیسٹ فیکلٹی ہونے کے ناطے میں پیپرز چیک نہیں کر سکتا اور وہ یونیورسٹی سے باہر ایویلیویشن کے لیے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ اگر کوئی طالب علم چھ ماہ تک کلاس میں حاضر نہیں ہوتا تو آپ اسے اچھے نمبر کیسے دے سکتے ہیں؟دی پرنٹ سے بات کرتے ہوئے شیخ نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، شیخ نے کہا کہ 2-3 دن پہلے، شکایت کرنے والے طالب علموں میں سے ایک اوجس گپتا، اپنے گریڈ کو بہتر بنانے کے لئے ان کے پاس آیا، اور کہا کہ اسے امتحان میں 85 فیصد سے زیادہ نمبر کی ضرورت ہے کیونکہ وہ آسٹریلیا میں مطالعہ کے لیے درخواست دینا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "لیکن اس معاملے میں، میں کچھ نہیں کر سکتا، ۔ بہت سے دوسرے طلباء جو خراب گریڈ کی شکایت کرتے ہیں وہ سال بھر میں زیادہ تر پریکٹیکل کلاسز سے محروم رہے ہیں اور ان میں سے کچھ نے اپنے امتحانی جوابی پرچے بھی خالی چھوڑے ہیں۔ تو انہیں اسکور کیسے دیا جا سکتا ہے؟”
شیخ نے کہا کہ اسے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے نہ صرف گپتا کو گریڈ میں اضافہ دینے سے انکار کر دیا بلکہ اس پر اعتراض بھی کیا جب سابق طالب علم کو پریکٹیکل امتحانات کی نگرانی کے لیے بلایا گیا۔
ہندو لڑکیوں کے ساتھ واٹس ایپ چیٹنگ پر انہوں نے کہا کہ ’’ایک مسلم طالبہ نے کچھ عرصہ قبل حجاب بیچنے کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا تھا اور تمام طالبات کو اس میں شامل کیا تھا، چاہے ان کا مذہب کوئی بھی ہو۔ یہ معاملہ انتظامیہ نے اٹھایا، اس کی سرزنش کی گئی اور گروپ کو ہٹا دیا گیا۔
شیخ نے بتایا کہ”وکرم یونیورسٹی میں میرے 13 سالہ دور میں، ان کے خلاف اب تک نہ تو وائس چانسلر اور نہ ہی کسی اور نے میرے طرز عمل کے بارے میں پوچھا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہی مجھے طلبہ کی شکایات کا علم ہوا۔