مدارس کے بارے میں ’این سی پی سی آر‘ کی سفارشات غیر منصفانہ
جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام چلنے والے مرکزی تعلیم بورڈ کے سکریٹری سید تنویر احمد نے این سی پی سی آر کے دعوے کو گمراہ کن قرار دیا
نئی دہلی،14 اکتوبر:۔
’نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘ ( این سی پی سی آر) کی جانب سے حالیہ دنوں میں مدارس کے سلسلے میں گمراہ کن بیانات سامنے آئے ہیں ۔ جس میں انہوں نے مدارس کی تعلیم و تربیت پر سوال کھڑے کرتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو مدرسہ بورڈ کے فنڈ کو روکنے کامطالبہ کیا ہے۔ این سی پی سی آر کے چیئر پرسن پریانک قانون گو کے اس گمراہ کن بیان پر متعد اہل مدارس نے تنقید کی ہے ۔ جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام چلنے والے مرکزی تعلیمی بورڈ کے سکریٹری سید تنوید احمد نے بھی این سی پی سی آر کے مدارس کے بارے میں مذکورہ بیان کو غیر منصفافہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی تعلیمی بورڈ ( ایم ٹی بی ) کے سکریٹری سید تنویر احمد نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ’’ اس طرح کی سفارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح متعلقہ سرکاری ادارہ مدارس کو غیر منصفانہ طریقے پر نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’این سی پی سی آر‘ کے چیئر پرسن پریانک کانونگو کی طرف سے ملک کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر اتنظام علاقوں کے چیف سکریٹریز اور ایڈمنسٹریٹر کو سرکلر جاری کرکے مدارس کے کردار کو غلط ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں کئی گمراہ کن دعوے کیے گئے ہیں۔
اس سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ’ آر ٹی ای ‘ ایکٹ 2009 سے مدارس کو مستثنیٰ قراردینا بچوں کو معیاری تعلیم تک رسائی سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ سچر کی رپورٹ کے مطابق محض 4 فیصد مسلم طلبہ مدارس میں پڑھتے ہیں لیکن 96 فیصد طلباء جو عصری علوم کے اداروں سے وابستہ ہیں ان کو نظر انداز کرتے ہوئے محض سیاسی مقاصد کے تحت مستقل مدارس اور طلباء مدارس کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ الزام کے مدارس کے طلباء مکمل طور پر عصری علوم سے محروم رہتے ہیں پوری طرح بے بنیاد ہے۔ بڑی تعداد میں مدارس میں جدید مضامین جیسے سائنس ، ریاضی کمپیوٹر و لسانیات وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ جہاں تک مذہبی تعلیم(تھیالوجی )پڑھائے جانے کی بات ہے تو ملک کی بہت سی بڑی یونیورسٹیوں میں بھی یہ کورس شامل ہے۔
’ این سی پی سی آر‘ نے مدارس کو ملنے والی سرکاری امداد اور مدرسہ بورڈکو بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ مرکزی تعلیمی بورڈ واضح کرنا چاہتا ہے کہ مدارس کے اور ان کی بنیادی ضرورتیں مسلم کمیونٹی کی مالی اعانت سے پوری کی جاتی ہیں ۔ حکومت سے ملنے والے فنڈ کا استعمال جدید کاری، عصری علوم کے اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کی فراہمی تک ہی محدود ہے‘‘۔
سید تنویر احمد نے کہا کہ ’ این سی پی سی آر‘ نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت مدرسہ بورڈز کو بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سفارش کے پیچھے سیاسی منشا کارفرما ہے۔ ورنہ این سی پی سی آر کو مدارس کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کے بجائے بچوں کی فلاح و بہبود کے حقیقی مسائل ، بچہ مزدوری ،غذائیت کی کمی، صحت ، ڈراپ آؤٹ جیسے مسائل پر توجہ دینی چاہئے۔ سرکلر میں غیر مسلم بچوں کو مدارس سے نکال کراسکولوں میں داخل کرنے کی بھی تجویز ہے۔ یہ سفارش شہریوں کے آئینی حق ’ انتخاب کی آزادی‘ کے خلاف ہے۔ اگر غیر مسلم والدین اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانا چاہتے ہیں یا مسلم اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں اس کا مکمل اختیار ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ان مدارس نے ملک و قوم کی سماجی و تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا حکومت مدارس کو الگ تھلگ کرنے کے بجائے پورے معاملے کا غیر جانبداریت کے ساتھ جائزہ لے ۔ مرکزی تعلیمی بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت ’ این سی پی سی آر‘ کی سفارشات پر نظر ثانی کرے اور اقلیتوں کے تعلیمی و آئینی حقوق کو مجروح کرنے والے تفرقہ انگیز سفارشات کو عمل میں لانے کے بجائے حقیقی زمینی مسائل پر توجہ دے۔