مدارس میں ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرے
مرکزی تعلیمی بورڈ جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام یک روزہ ورکشاپ میں امیر جماعت کا اظہار خیال
نئی دہلی،05مئی:
مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کی جانب سے یک روزہ ورکشاپ برائے ” تدوین نصاب مدارس اسلامیہ ہندیہ“ منعقد کیا گیا۔ ورکشاپ کے پہلے سیشن کی صدارت امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کی۔ افتتاحی گفتگو مرکزی تعلیمی بورڈ کے سکریٹری سید تنویر احمد اور خطبہ استقبالیہ مہتمم جامعۃ الصالحات رامپور ڈاکٹر سلمان اسعد نے پیش کیا۔دوسرا سیشن مرکزی تعلیمی بورڈکے چیئر مین پروفیسر سلیم انجینئر کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر بدرا الاسلام، مجتبیٰ فاروق، مولانا طاہر مدنی، یحییٰ نعمانی، ڈاکٹر حاذق ندوی میسوری،، ڈاکٹر نسیم علی گرھ اور’این آئی او ایس‘ کے جوائنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شعیب رضا کے علاوہ ملک بھر سے آئے ہوئے علمائے کرام، دانشوران ملت اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ” مدارس اسلامیہ کے نصاب پر ملک میں بحث ہورہی ہے۔اس بحث کے تین محرکات ہیں۔ پہلا تمدنی تبدیلیاں ہیں جس سے ہمارا موجودہ زمانہ گزر رہا ہے۔ علم میں اضافے کی رفتار حیرت انگیز طور پر بڑھ چکی ہے۔ان تمدنی تبدیلیوں کا تعلق علم دین سے بھی ہے اور دینی رہنمائیوں سے بھی۔ ان حالات میں تعلیم کا نظام کیسا ہو؟ غور کرنے کا موضوع ہے۔ دوسرا محرک ملک و ملت کے حالات ہیں۔ چیلنجوں کی نوعیت بدل گئی ہے۔ مغربی تہذیب اور ہمارے ملک کی مشرکانہ سیاسی و سماجی روش ہماری تہذیبی بنیادوں کو مسمار کرنے کے درپے ہے۔ یہ حالات بھی دینی تعلیم کے نئے اپروچ کا تقاضہ کرتے ہیں۔ تیسرا محرک قانونی و سیاسی تقاضے ہیں جن کا دباؤ اس وقت مدارس شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ یہ محرکات یقینا اہم ہیں لیکن میرے خیال میں نظر ثانی کا اصل محرک براہ راست مدارس کے مقاصد اور ہماری اصل دینی ضرورتوں سے متعلق ہے۔ہمیں ان محرکات کو نظر میں رکھنا ہوگا۔ آج علمی و فکری کام کرنے والے، رہنمائی اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والے اور اصلاحی خدمات انجام دینے والے علماءکی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم محاذ جس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہے دعوتی محاذ۔ اس محاذ پر کام کرنے کے لئے علماء کو مختلف زبانوں میں اسلامی ترجمانی کی مہارت حاصل کرنی ہوگی۔ آج ایسے نظام کی سخت ضرورت ہے جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرے“
ڈاکٹر سلمان اسعد نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ ” مدارس اسلامیہ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں نصاب تعلیم، اسلوب تدریس، مراحل تعلیم، قانونی دشورایاں اور اساتذہ کی ٹریننگ شامل ہیں“۔ انہوں نے ان تمام چیلنجز کے مقابلے کے لئے تدابیر بھی پیش کی۔سید تنویر احمد نے شرکاءکا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ”جماعت اسلامی ہند اپنے قیام ہی سے تعلیم کو اہمیت دیتی رہی ہے۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں علم کو بنیادی اہمیت دیتی ہے اور مدارس اسلامیہ کے کردار اور مقام کو تسلیم کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں علم کے میدان میں قیادت مغربی ممالک کررہے ہیں جبکہ اس کی قیادت اسلام کو کرنی چاہئے۔ اس میں مدارس اسلامیہ اہم کردار انجام دے سکتے ہیں“۔پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ”’تدوین نصاب مدارس اسلامیہ‘ پر عرصہ سے بات ہورہی ہے، اب اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ نئے تقاضوں کے مطابق علماءکی کھیپ تیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ لہٰذا ہمیں اس پر نئے انداز سے سوچنے اور مدارس کے نظام میں تجدید کی ضرورت پر غور کرنا چاہئے۔ پہلے سیشن کی نظامت مولانا انعام اللہ فلاحی اور دوسرے کی ڈاکٹر عطاءالرحمن نے کی۔