مدارس اور مساجد کو مذہبی بنیاد پر نشانہ بنانا آئین کی روح کے خلاف ہے

’مدارس ہماری شناخت ہیں، ہم اس شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے‘، کل ہند تحفظ مدارس اجلاس سے مولانا ارشد مدنی کا خطاب

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،02 جون :۔

اتر پردیش سمیت ملک بھر میں بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر مدارس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جس پر مسلمانوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے ۔ اسی سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند نے یکم جون پیر  کو اعظم گڑھ، اتر پردیش میں ‘تحفظ مدارس  کانفرنس کے تحت ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں حکومت کی طرف سے  مدارس کو بھیجے جانے والے "من مانی نوٹسز”  کے خلاف آواز بلند کی گئی اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے  اس دوران خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’یہ تقریب کسی جشن کے لیے منعقد نہیں کی گئی ہے… یوپی میں مدارس کو طرح طرح کے نوٹس مل رہے ہیں اور انہیں بند کیا جا رہا ہے،‘‘ ۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آسام، اتر پردیش، اتراکھنڈ  کے بعد  ہریانہ حکومت نے بھی پانی پت اور دیگر خطوں کے مدارس کو نوٹس بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ اس دوران مولانا ارشد مدنی نے ہندوستانی تحریک آزادی میں مدارس کی شمولیت اور نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف ان کی خدمات کی یاد دلائی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ مرتے دم تک مدارس کے خلاف اقدامات کی مخالفت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ  مساجد  وہ جگہیں  ہیں جہاں ہم نماز پڑھتے ہیں اور قرآن پڑھتے ہیں، مدارس ایسے مراکز ہیں جہاں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح نماز پڑھنا اور قرآن پڑھنا ہے۔  انہوں نے کہا کہ آج ان مدارس پر بلڈوزر چل رہے ہیں جو کبھی انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کے لیے کھڑے تھے۔

انھوں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی اجلاس نہیں ہے، بلکہ موجودہ حالات میں مدارس کی حفاظت کو یقینی کرنے کے مقصد سے سنجیدہ غور و خوض اور آگے کی حکمت عملی طے کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ مدارس صرف تعلیم کے مراکز نہیں ہیں، ان کا مقصد صرف تعلیم و تعلم نہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت کے لیے نئی نسلوں کی سوچ کو تیار کرنا بھی رہا ہے۔

مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ آج جن مدارس کو غیر قانونی کہہ کر زبردستی بند کیا جا رہا ہے، یہ وہی مدارس ہیں جہاں سے سب سے پہلے انگریزوں کی غلامی کے خلاف آواز اٹھی تھی۔ انھوں نے تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب 1803 میں پورا ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا تھا، تب دہلی سے معروف مذہبی و روحانی ہستی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے مدرسہ رحیمیہ سے ایک ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر اعلان کیا کہ ملک غلام ہو چکا ہے، اس لیے غلامی سے آزادی کے لیے جنگ کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ اس اعلان کے ان کے مدرسہ کونیست و نابود کر دیا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس کا مطلب کتابیں پڑھنا اور پڑھانا ہے وہ غلط ہیں، جن مدارس نے آزادی کی جنگ لڑی، آج کہا جاتا ہے کہ وہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

مدنی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ایک سیکولر، جمہوری ملک میں ناقابل قبول ہے اور جب مدارس اور مساجد کو خالصتاً مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنایا جائے تو یہ آئین کی روح کی خلاف ورزی ہے۔

مولانا ارشد مدنی  نے کہا کہ غیر قانونی بتا کر مدارس کے خلاف کی جا رہی حالیہ کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس سازش کے خلاف ایک بار پھر اپنی قانونی جدوجہد شروع کر دی ہے، کیونکہ مدارس کی حفاظت دراصل مذہب کی حفاظت ہے۔ ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی اور مدارس کی حفاظت کے لیے قانونی و جمہوری جنگ جاری رکھیں گے۔ انھوں نے مدارس کے ذمہ داران کو حوصلہ بخشتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند آپ کے ساتھ ہے، اور ہر طرح کی مدد و قانونی مدد آپ کو فراہم کرے گی۔