مخلوط تہذیب جنوبی ہند میں فروغ پائی،شمال میں نہیں

حیدرآباد میں ایس آئی او کے زیر اہتمام ہسٹری کانفرنس سے ماہرین تاریخ کاخطاب

حیدرآباد:(پریس نوٹ)ساؤتھ انڈیا ہسٹری کانفرنس جس میں ملک کی مختلف ریاستوں سے ماہر تاریخ داں، پروفیسرس اور محققین نے شرکت کی جہاں مختلف الخیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھا گیا۔ یہ کانفرنس CERT اور ایس آئی او آف انڈیا کی شراکت داری کے ساتھ منعقد کی گئی جس کا مقصد تاریخی تناظر میں پسماندہ طبقات کے مسائل پر غور کرنا تھا۔برادر لبید شافی (صدر تنظیم ایس آئی او) نے اپنے افتتاحی خطاب میں کانفرنس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں منظم انداز میں تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا جارہا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب مخلوط ہے آج کے ان سنگین حالات میں CERT نے اس اہم موضوع پر یہ پروگرام رکھا ہے جو کہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پروفیسر سلیمان صدیقی نے کہا کہ مسلم ہندوستان میں محمد بن قاسم کی وجہ سے نہیں آئے بلکہ نبی ؐ کے دور میں ہی کیرالہ میں آئے تھے اور انھوں نے یہاں تجارت کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ جنوب اور شمال میں فرق یہ ہیکہ جنوب میں ہندو مسلم ساتھ ساتھ رہتے تھے، ہندو راجہ مسلمانوں کو ساتھ رکھتے تھے، ان کے لئے تجارت کے مواقع فراہم کرتے تھے. لیکن شمال میں ہمیشہ چڑھائی ہوتی تھی، حکومت کے لیے جنگ ہوتی تھی۔ محمد بن قاسم بھی اس ایک مثال ہے. مخلوط تہذیب جنوبی ہند میں ترقی پائی لیکن شمالی ہند میں ترقی نہیں پاسکی۔ دکن میں مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا آغاز 1300 عیسوی سے ہوتا ہے. نظام نے مختلف مندروں، مساجد اور یونیورسٹیوں کو لاکھوں روپے کی امداد فراہم کی۔ پہلے دن کے افتتاحی سیشن کے بعد مزید تین سیشنز مختلف عناوین جیسے کہ جنوبی ہند کے کمیونٹیز کی تاریخ، جنوبی ہند کے الحاق کی تاریخ وغیرہ کے تحت رکھے گئے۔ کومبیا ایس انور (سینیر جرنلسٹ اینڈ ڈاکومنٹری میکر)، سرفراز شیخ (سینیر جرنلسٹ، ٹایمز آف انڈیا) اور ڈاکٹر مظفر اسدی (آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی، رایچور یونیورسٹی) نے بالترتیب مختلف سیشنز کی صدارت کی۔ پہلے دن کا اختتام گول میز کانفرنس کے ساتھ ہوا، جس میں مختلف اسٹوڈنٹس لیڈرس نے شرکت کی، اس کی صدارت برادر اظہر الدین (جنرل سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا) نے کی- دوسرے دن کے پہلے سیشن کی صدارت جناب مظفر اسدی (آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی، رایچور یونیورسٹی) نے کی، اس سیشن میں جنوبی ہند کے علاقائی اور قبائلی تاریخ نیز تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر گفتگو کی گئی۔ پروفیسر اسدی نے کہا کہ ٹیپو سلطان نے کرناٹک کا جدید تصور پیش کیا لیکن ان کے کارناموں اور کاوشوں کو صحیح انداز میں سراہا نہیں گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ٹیپو سلطان کے دور میں جو تبدیلی مذہب کے واقعات پیش آئے تھے وہ خالص سیاسی مقاصد کے تحت تھے لیکن ان کو مذہبی شدت پسندی کے طور پر پیس کیا جاتا ہے۔جنوبی ہند کا علاقہ بڑے عرصہ تک مذہبی منافرت سے محفوظ رہا جس کا بڑا سبب یہاں کے صوفی حضرات تھے، 80 کی دہائی کے بعد سے یہاں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے۔ دوسرے دن مختلف سیشنز رہے جن کے عناوین ”دکن کی سیاسی تشکیل کی تاریخ“، ”ادب اور فن تعمیر کا تاریخی تجزیہ“ اور ” ”ذات مخالف تحریکات اور تبدیلی مذہب کا تاریخی تجزیہ“ تھے۔کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے حامد محمد خان صاحب (امیر حلقہ،جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ) نے کہا کہ آج کے دور میں سوشل سائنسس کے میدان میں کام کی بہت ضرورت ہے. لیکن والدین بچوں کو جلد روزگار سے مربوط کربے کے لیے اپنے بچوں کو ٹیکنکل تعلیم دلارہے ہیں. موصوف نے مزید کہا کہ تاریخ کے میدان میں زندگی کھپائے بغیر تاریخ پڑھنے والوں کو تاریخ داں نہیں کہا جاسکتا. افسوس کی بات یہ ہیکہ جب بابری مسجد کی کھدوائی ہورہی تھی تب ہم کو کوئی مسلم تاریخ داں نہیں ملا ہاں مسلم مزدور ضرور مل گئے ، جس کی وجہ سے ایک بائیں بازو کی ذہنیت والے شخص پربھروسہ کرنا پڑا. پروفیسر سید ایوب (سابق پروفیسر، کاکتیہ یونیورسٹی) نے کہا کہ انگریزوں نے ہندوستان کی تاریخ کی تین حصوں میں تقسیم کی۔ قدیم دور، درمیانی اور جدید دور. قدیم تاریخ کو انھوں نے ہندو تاریخ بتایا اور درمیانی تاریخ کو مسلم بنایا ساتھ ہی ساتھ اسے ایک فرقہ ورانہ تاریخ بتایا. ہم کو تاریخ کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت ہے.-مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ یونین کے ذمہ داران، مختلف تنظیموں کے نمائندے، اور 7 ریاستوں کے ریسرچ اسکالرز نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔