متھراشاہی عید گاہ تنازعہ :ہندو فریق کو الہ آباد ہائی کورٹ سے جھٹکا، متنازعہ ڈھانچہ قرار دینے سے انکار
جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی عدالت نے مدعی مہندر پرتاپ سنگھ کی درخواست کو مسترد کر دیا

نئی دہلی ،04 جولائی :۔
متھرا میں شاہی عیدگاہ تنازعہ معاملے میں ایک اہم پیش رفت میں ہندو فریق کو جھٹکا لگا ہے۔ جمعہ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ سے متعلق جائیداد کو متنازعہ قرار دینے سے انکار کر دیا۔ عدالت کے اس فیصلے سے ہندو فریقین کو جھٹکا لگا ہے۔ جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی عدالت نے مدعی مہندر پرتاپ سنگھ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق آج شاہی عیدگاہ معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ میں شاہی عیدگاہ کو متنازعہ ڈھانچہ قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ قبل ازیں عدالت نے ہندو فریق کی درخواست پر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ ساتھ ہی فیصلے کے لیے 4 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ سری کرشن جنم بھومی مکتی نیاس کے صدر مہندر پرتاپ سنگھ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ شاہی عیدگاہ کو متنازعہ ڈھانچہ قرار دیا جائے۔ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ متھرا کی شاہی مسجد بھی سری کرشن جنم بھومی کے اصل مقدس مقام کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی۔ تاہم مسلم فریق نے ہندو فریق کے اس مطالبے کی مخالفت کی تھی۔ عدالت میں تحریری اعتراض بھی دائر کیا گیا۔ دونوں فریقوں کو سننے کے بعد جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی عدالت نے شاہی عیدگاہ کو متنازعہ ڈھانچہ قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ تنازعہ مغل حکمراں اورنگزیب کے زمانے کی شاہی عیدگاہ مسجد سے متعلق ہے، جسے ہندو فریق کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سری کرشن جنم استھان مندر کو گرا کر تعمیر کیا گیا ۔ 1968 میں، سری کرشنا جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی مسجد عیدگاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کے تحت دونوں عبادت گاہیں ایک ساتھ کام کرنے لگیں۔ موجودہ سوٹ میں، اس معاہدے کو دھوکہ دہی اور غیر قانونی کے طور پر چیلنج کیا گیا تھا۔ مئی 2023 میں ہائی کورٹ نے متھرا کورٹ میں زیر التوا تمام مقدمات کو اپنے پاس منتقل کر دیا۔ اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ دسمبر 2023 میں، ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد کے معائنہ کے لیے کورٹ کمشنر مقرر کرنے کے مطالبے کو منظور کیا۔ لیکن جنوری 2024 میں سپریم کورٹ نے اس حکم پر روک لگا دی، جسے بعد میں بڑھا دیا گیا۔