متنازہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف آخری سانس تک لڑائی جاری رہے گی

تالکٹورہ اسٹیڈیم میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام وقف بچاؤ کانفرنس میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف زبر دست احتجاج،متفقہ طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ  

نئی دہلی،22 اپریل :۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام آج  راجدھانی دہلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم میں  متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف بڑے پیمانہ پر احتجاج کا اہتمام کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں علمائے کرائم کے علاوہ سکھ ،عیسائی  مذہب کے نمائندوں اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔یہ پروگرام وقف بچاؤ کانفرنس  کے طور پر منعقد کیا گیا تھا جس میں   شرکت کرنے والے اراکین پارلیمنٹ، علمائے کرام، دانشوروں  اور دیگر مذاہب کے نمائندوں نے  متفقہ طور پر وقف ترمیمی بل 2025 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون آئین کی بنیادی روح کی خلاف ورزی کرتا ہے اور وہ اسے کسی بھی حالت میں قبول نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس قانون کو منسوخ نہیں کیا جاتا اور ملک کے کونے کونے میں اس قانون کے خلاف آوازیں اٹھائی جائیں گی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں وقف ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے اکثریتی ہندو برادری اور اقلیتی برادری کے مختلف طبقوں کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں عام لوگوں میں بھائی چارہ اب بھی موجود ہے۔ انہوں نے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے وقف ایکٹ 2025  کے خلاف  حمایت کی اور کہا کہ ہمیں ضرور کامیابی ملے گی۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے وہاں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو نہیں مانتے اور ہم اس کے خلاف سڑکوں سے عدالت تک لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں عدالت سے بہت توقعات ہیں اور عدالت آئندہ سماعت میں اس قانون پر اپنا فیصلہ دے گی اور مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے حق میں ہوگا۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف قانون کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے بتانے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ قانون آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے اس لیے یہ اہل وطن کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

اس موقع پر رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارے وزیر اعظم کا طیارہ سعودی عرب کی فضائی حدود میں پہنچا تو ایک F-16 طیارے نے ان کا استقبال کیا اور ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ جب وزیر اعظم محمد بن سلمان سے ملاقات کریں تو وہ ان سے ضرور پوچھیں کہ ان  کے یہاں وقف ہے یا نہیں، تو انہیں بتایا جائے گا کہ وہاں بھی وقف ہے اور دنیا کے تمام مسلم ممالک میں وقف کا انتظام موجود ہے۔ لیکن ہماری پارلیمنٹ میں گمراہ کرنے کے لیے کہا گیا کہ دنیا میں کہیں بھی وقف نام کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اپنے ملک میں مسلمانوں کے غریب ہونے کی بات کرتے ہیں اور سعودی عرب جا کر محمد بن سلمان کو گلے لگاتے ہیں۔

اس موقع پر ایم پی محب اللہ ندوی نے کہا کہ جہاں وہ وقف ایکٹ 2025 پر بات کرنے جارہے ہیں وہیں ہندو برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان سے اپنی حمایت دینے کی بات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر اقلیتی برادریوں کے لوگ وقف ایکٹ کے کھلم کھلا خلاف ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں۔ ایم پی دھرمیندر یادو نے بھی اس موقع پر موجود لوگوں کو یقین دلایا کہ یہ قانون غیر آئینی ہے اور سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ اگلی سماعت میں اس پر اپنا موقف واضح کرے گی اور مجھے امید ہے کہ اس پر پابندی لگائی جائے گی۔ سابق رکن اسمبلی علی انور نے بھی وقف ایکٹ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی اور کہا کہ اگر یہ قانون ملک کے عوام کو قابل قبول نہیں ہے تو اسے منسوخ کر دینا چاہیے۔

آل انڈیا جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام  مہدی سلفی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اسے ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت چاہتی تو یہ معاملہ مل بیٹھ کر حل کر سکتی تھی۔ شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کالا قانون ہے اور ہم اسے ہرگز قبول نہیں کر سکتے۔ یہ وقف املاک کو غصب کرنے کا قانون ہے۔ ہم اپنے وقت اور اثاثوں کی حفاظت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ درگاہ اجمیر شریف کی سید سجادگان کمیٹی کے جنرل سکریٹری خادم سرور چشتی نے بھی اس موقع پر کہا کہ ہم روز اول سے اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ مل کر اس قانون کو واپس لینے تک اس کی مخالفت جاری رکھیں گے۔